جنسی استحصال: افغان خواتین فٹ بالرز سابق چیف کی گرفتاری چاہتی ہیں

کھیلوں کی ثالثی عدالت نے خواتین کھلاڑیوں کے جنسی استحصال میں ملوث افغان فٹ بال فیڈریشن کے سابق صدر کریم الدین کریم پر فٹ بال کی عالمی تنظیم فیفا کی جانب سے تاحیات پابندی کو برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔

افغان فٹ بال فیڈریشن کے سابق صدر کریم الدین کریم پر خواتین کھلاڑیوں کے جنسی استحصال کے الزامات گذشتہ سال سامنے آئے تھے (اے ایف پی فائل)

جنسی استحصال کی شکار خواتین کھلاڑیوں نے بدھ کو افغان فٹ بال فیڈریشن (اے ایف ایف) کے سابق اور مفرور صدر کریم الدین کریم کی گرفتاری کا مطالبہ کیا ہے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق یہ مطالبہ ایک ایسے وقت سامنے آیا ہے جب کھیلوں کی ثالثی عدالت نے خواتین کھلاڑیوں کے جنسی استحصال میں ملوث کریم الدین کریم پر فٹ بال کی عالمی تنظیم فیفا کی جانب سے تاحیات پابندی کو برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔

کریم پر گذشتہ سال متعدد خواتین فٹ بالرز کے ساتھ جنسی زیادتی کا جرم ثابت ہوا جس کے بعد فیفا نے ان پر سخت ترین تاحیات پابندی اور 10 لاکھ ڈالر جرمانہ عائد کیا تھا۔

کھیلوں کی ثالثی عدالت نے منگل کو فیفا کے فیصلے کو برقرار رکھتے ہوئے کہا: ’کریم نے بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی ہے اور نوجوان خواتین کھلاڑیوں کے ذہنی اور جسمانی وقار اور سالمیت کو نقصان پہنچا ہے۔‘

کھیلوں کی اعلیٰ ترین عدالت نے ایک بیان میں کہا: ’انہوں (کریم) نے اپنے خوفناک جرائم سے نہ صرف ان (خواتین کھلاڑیوں) کے کیریئر کو تباہ کر دیا بلکہ ان کی زندگیوں کو بھی شدید نقصان پہنچایا ہے۔‘

کریم الدین کریم نے اس سے قبل ان الزامات کو ایک ’سازش‘ قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا تھا تاہم گذشتہ سال جب افغان حکام نے ان کی گرفتاری کے لیے وارنٹ جاری کیے تب سے وہ مفرور ہیں۔

اے ایف ایف کے سابق سربراہ کے خلاف مہم چلانے والی سابق خواتین ٹیم کی کپتان خالدہ پوپل نے کہا ہے کہ عدالت کے اس فیصلے سے ایک اہم پیغام دیا گیا ہے۔

پوپل نے اے ایف پی کو بتایا: ’یہ ایک سخت پیغام ہے کہ فٹ بال میں انسانی حقوق کی پامالی اور زیادتی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔‘

نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایک اور خاتون فٹ بالر نے کہا: ’کریم کو بہت پہلے ہی گرفتار کرلیا جانا چاہیے تھا لیکن ہم پھر بھی خوش ہیں کہ دنیا ان (کے جرائم کو) نہیں بھولی۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے مزید کہا کہ ’دنیا کو ان کی گرفتاری کے لیے افغان حکومت پر مزید دباؤ ڈالنا چاہیے۔‘

اس سکینڈل نے خواتین کی فٹ بال کو ہلا کر رکھ دیا تھا اور اس کے بعد متعدد کھلاڑیوں کو تربیت چھوڑنے اور اپنے اہل خانہ کے دباؤ میں کھیل تک کو چھوڑنے پر مجبور کردیا۔

اس واقعے کے بعد خواتین کے لیے سخت گیر اور قدامت پرست ملک میں قومی خواتین کی ٹیم کے متعدد میچز صرف اس لیے منسوخ کر دیے گئے کیوں کہ سپانسرز نے اپنے معاہدے ختم کر دیے تھے۔

ایک اور متاثرہ خاتون کھلاڑی نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا: ’ہم دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑی ہو رہی ہیں۔ صحت یاب ہونے میں وقت لگتا ہے لیکن مجھے خوشی ہے کہ کم از کم انصاف کی جیت ہوئی ہے۔‘
انہوں نے بھی کریم کی گرفتاری کا مطالبہ کیا۔

افغان حکام ابھی بھی کریم کی تلاش کر رہے ہیں۔

افغان اٹارنی جنرل کے دفتر نے اے ایف پی کو بتایا کہ انہوں نے اس واقعے کی مکمل تفتیش کی ہے لیکن کریم کبھی بھی تحقیق کے لیے پیش نہیں ہوئے۔

اٹارنی جنرل کے ترجمان جمشید رسولی نے کہا: ’وہ ابھی تک فرار ہیں اور ہم نے پولیس سے ان کی گرفتاری کا مطالبہ کیا ہے۔ وہ جب بھی گرفتار ہوں گے عدالت ان کی قسمت کا فیصلہ کرے گی۔‘

یہ تنازع گذشتہ برس دسمبر میں منظر عام پر برطانیوی اخبار دی گارڈین کی اس رپورٹ کے بعد آنا شروع ہوا جس میں افغانستان کی قومی ٹیم کی ایک رکن خالدہ پوپل نے سابق کھلاڑیوں سے جنسی زیادتی، جان سے مارنے کی دھمکیوں کی تفصیلات اکٹھی کی تھیں۔

کریم نے ان الزامات کی تردید کی ہے اور ان کا موقف ہے کہ انہیں بغیر کسی ثبوت کے ایک ’سازش‘ کا شکار بنایا جا رہا ہے۔

افغان صدر اشرف غنی نے اس واقعے پر صدمے کا اظہار کیا تھا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی کھیل