اظہار باادب طالب علم تھے، دہشت گرد قرار دے کر مارا گیا: پروفیسر

چلاس میں سی ٹی ڈی کے رواں ہفتے ایک مکان پر چھاپے کے دوران پانچ پولیس اہلکاروں اور دو افراد کی ہلاکت کا مقدمہ نامعلوم افراد کے خلاف درج کر لیا گیا۔

اظہار اللہ (تصویر بشکریہ پامیر ٹائمز۔نیٹ)

گلگت بلتستان کے ضلع دیامر کے علاقے چلاس میں انسدادِ دہشت گردی کے محکمے سی ٹی ڈی کے رواں ہفتے ایک مکان پر چھاپے کے دوران پانچ پولیس اہلکاروں اور دو افراد کی ہلاکت کا مقدمہ نامعلوم افراد کے خلاف درج کر لیا گیا۔

ایف آئی آر چھاپہ مار ٹیم کی قیادت کرنے والے سی ٹی ڈی کے انسپکٹر نبی خان کی مدعیت میں درج کی گئی، جس میں دعویٰ کیا گیا کہ اس کارروائی میں سی ٹی ڈی اہلکار اور مکان میں موجود اظہار اللہ اور بشارت حسین فرار ہونے والے ملزموں کی فائرنگ کے نتیجے میں مارے گئے۔

ایف آئی آر کے مطابق سی ٹی دی اہلکار سہراب خان نے ایک مخبر کے حوالے سے اطلاع دی کہ علاج اعظم نامی شخص اپنے مکان میں غیرقانونی اسلحے کا کاروبار کرتے ہیں اور ان کے ہاں مشکوک افراد کا آنا جانا ہے۔ اسی اطلاع  پر چھاپہ مارا گیا۔

انسپکٹر نبی خان کے مطابق انہوں نے فائرنگ کرنے والے ایک شخص کو دیکھا تھا، ان کا جسم موٹا اور چہرے پر داڑھی تھی، قد درمیانہ اور عمر لگ بھگ 50 برس کی تھی، جنہیں وہ سامنے آنے پر پہچان سکتے ہیں۔

گلگت بلتستان کے نگران وزیراعلیٰ کے پریس سیکرٹری فیض اللہ فراق کے مطابق نامعلوم افراد نے چھاپہ مار ٹیم پر اندھیرے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے فائرنگ کی اورفرار ہوگئے۔ نگران حکومت نے کیس کی تحقیقات کے لیے کمیٹی قائم کر دی  ہے۔

پیراورمنگل کی درمیانی شب  سی ٹی ڈی کے 21 اہلکار جگلوٹ سے آئے اور علاج اعظم کے دروازے پر دستک دی۔ گھر میں موجود خواتین نے دروازہ کھولا تو وہ اندر داخل ہو گئے اور گھر کی تلاشی لی لیکن انہیں کچھ نہ ملا۔ اس دوران فائرنگ شروع ہو گئی جس کے نتیجے میں ہلاکتیں ہوئیں۔

گاؤں کے ایک رہائشی نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ سی ٹی ڈی اہلکاروں کے ساتھ کچھ اور لوگ بھی تھے۔ گلگت بلتستان کے آئی جی، ڈی آئی جی اور ایس پی دیامر شیرخان نے واقعے پر بات سے کرنے سے انکار کر دیا ہے۔

واقعے میں ہلاک والے اظہاراللہ کے بارے میں معلوم ہوا ہے وہ نمل یونیورسٹی اسلام آباد میں پڑھتے تھے اور کرونا (کورونا) وبا کی وجہ سے یونیورسٹی بند ہونے کے سبب گاؤں چلے گئے تھے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جس وقت فائرنگ ہوئی وہ گھر میں تھے۔ ان کے بہنوئی بشارت حسین ان کے ساتھ تھے۔ وہ بھی گولیاں لگنے سے ہلاک ہوئے۔ اظہار اللہ کے ایک بھائی کے بارے میں بتایا گیا ہے ان کی اپنے کچھ رشتہ داروں کے ساتھ دشمنی چل رہی ہے اور وہ جیل میں ہیں۔

نمل یونیورسٹی کے پروفیسر طاہر ملک نے اپنے ٹویٹ میں کہا ہے کہ اظہار اللہ ان کے ایک باادب اور سنجیدہ طالب علم تھے، ان کا ذاتی کاروبار تھا، انہیں ’دہشت گرد‘ قرار دے کر مار دیا گیا، واقعے کی عدالتی تحقیقات ہونی چاہیے۔ 

پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما فرحت اللہ بابر کا اپنے ٹویٹ میں کہنا تھا کہ واقعہ افسوس ناک اور قابل مذمت ہے۔ انہوں نےبھی  اس کی عدالتی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان