کشمیریوں کی مسلسل تیسری عید لاک ڈاؤن کی نذر

بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں ہفتے کو عید الاضحیٰ کے موقع پر کہیں بھی نماز عید کا بڑا اجتماع منعقد نہیں ہوا اور لوگ اپنے گھروں یا محلوں تک ہی محدود رہے۔

سری نگر کی ایک سڑک پر نقلی بندوق اٹھائے ایک بچہ سکیورٹی اہلکار کے قریب کھڑا ہے (تصویر: عمر گنائی)

پانچ اگست 2019 کو بھارتی حکومت کی جانب سے اپنے زیر انتظام کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کے خاتمے کے بعد سے وادی میں لاک ڈاؤن جاری ہے۔

کشمیر میں ایک سال سے جاری اس مسلسل لاک ڈاؤن کی وجہ سے جہاں معیشت کو پانچ ارب ڈالر سے زائد کا نقصان ہوا ہے، وہیں مقامی لوگ عید جیسے مذہبی تہوار منانے سے بھی قاصر ہیں۔

گذشتہ ایک سال کے دوران یہ عید الاضحیٰ تیسری ایسی عید ہے جو لاک ڈاؤن کی نذر ہوگئی ہے۔

انڈپینڈنٹ اردو کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق کشمیر میں ہفتے کو عید الاضحیٰ کے موقع پر کہیں بھی نماز عید کا بڑا اجتماع منعقد نہیں ہوا اور لوگ اپنے گھروں یا محلوں تک ہی محدود رہے۔

تاہم بعض علاقوں میں لوگوں نے نماز فجر کے بعد مقامی مساجد یا پارکوں میں چھوٹے چھوٹے اجتماعات میں نماز عید ادا کی، جس کے دوران کرونا (کورونا) وائرس کی وبا کے پیش نظر سماجی دوری کا خیال رکھا گیا ہے۔ کشمیریوں کی ایک بڑی تعداد نے نماز عید اپنے گھروں میں ہی ادا کی ہے۔

عید الاضحیٰ کی تقریبات محض سنت ابراہیمی کے تحت جانوروں کی قربانی تک ہی محدود رہیں، تاہم مسلسل لاک ڈاؤن کا اثر جانوروں کی قربانی پر بھی پڑا ہے اور ایک اندازے کے مطابق اس میں پچاس فیصد کمی دیکھنے کو مل سکتی ہے۔

اکثر کشمیریوں نے عید کے لیے کوئی مخصوص خریداری نہیں کی۔ اس کی ایک وجہ مسلسل لاک ڈاؤن سے لوگوں کے معاشی حالات پر پڑنے والے اثرات اور دوم کرونا وائرس کے پیش نظر احتیاط کو قرار دیا جارہا ہے۔

کشمیر میں عید الاضحیٰ کے موقع پر سب سے بڑے اجتماعات دارالحکومت سری نگر میں تاریخی عید گاہ اور درگاہ حضرت بل میں منعقد ہوتے ہیں جن میں لاکھوں افراد شرکت کرتے تھے۔

تاہم کرونا وائرس کے خطرات، حکومتی ایڈوائزری اور سخت لاک ڈاؤن کے پیش نظر یہ اجتماعات ایک بار پھر منعقد نہیں ہوسکے۔ نیز تمام بڑی مساجد، امام بارگاہوں اور زیارت گاہوں کے منبر و محراب بھی خاموش رہے۔

گذشتہ برس عید الاضحیٰ کے موقع پر بھی یہاں اس تہوار کی تمام تر تقریبات مفقود رہی تھیں کیونکہ تب بھارتی حکومت نے پانچ اگست 2019 کے فیصلوں کے پیش نظر لوگوں کی آزادانہ نقل و حرکت پر سخت پابندیاں عائد کر رکھی تھیں۔

حکومتی ترجمان کے مطابق کشمیر میں کرونا وائرس کو پھیلنے سے روکنے کے لیے نافذ لاک ڈاؤن میں ہفتے کے روز سے پانچ اگست تک توسیع کی گئی ہے، یعنی اس دوران لوگوں کی آزادانہ نقل و حرکت اور دیگر تمام سرگرمیاں معطل رہیں گی۔

سرکاری اعداد وشمار کے مطابق کشمیر میں اب تک کرونا کے 20 ہزار کیسز سامنے آچکے ہیں جبکہ اس مہلک وبا میں مبتلا  380 افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں۔

قربانی کا گوشت کیسے تقسیم ہوگا؟

انڈپینڈنٹ اردو نے جب کشمیر کے مفتی اعظم مفتی ناصر الاسلام سے پوچھا کہ موجودہ حالات میں کشمیری عوام قربانی کا گوشت کیسے تقسیم کرسکتے ہیں تو ان کا کہنا تھا: 'گوشت کی تقسیم کا عمل موجودہ حالات میں ناممکن ہے۔ بہتر تجویز یہ ہے کہ قربانی کا گوشت فریزر میں سٹور کریں اور رفتہ رفتہ تقسیم کریں۔'

ان کا مزید کہنا تھا: 'شریعت میں قربانی کے گوشت کی تقسیم کاری کی کوئی ڈیڈ لائن مقرر نہیں ہے۔ عرب دنیا میں لوگ اس گوشت کو سکھا لیتے تھے۔ پھر مہینوں تک استعمال کرتے تھے۔ بہتر ہے کہ زیادہ سے زیادہ گوشت غربا میں ہی تقسیم کیا جائے۔ یہاں غربا کی کوئی کمی نہیں ہے۔'

مفتی اعظم کا مزید کہنا تھا: 'بھارت کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کے خاتمے کو اپنی کامیابی سمجھتا ہے جبکہ کشمیری اسے ظلم سمجھتے ہیں اور بیرون دنیا میں لوگوں کا ماننا ہے کہ کشمیر میں لاوا پک رہا ہے جو کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے۔'

معروف اسلامی سکالر و مصنف مولانا ایم ایس رحمان شمس نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ عالمی سطح پر پھیلنے والی وبا کے باعث رواں برس عید الفطر اور عید الاضحیٰ روایتی جوش و خروش سے منائی نہیں جاسکیں جبکہ اس سے قبل پانچ اگست 2019 کو نافذ کی جانے والی سخت بندشوں کی وجہ سے عید الاضحیٰ کے اجتماعات کو ناممکن بنا دیا گیا تھا۔

ان کا کہنا تھا: 'ہمارے لیے بہت ہی اضطراب، دکھ اور افسوس کی بات ہے کہ مسلمانان کشمیر اجتماعی طور پر اللہ کی طرف رجوع نہیں کرپائے۔ لیکن اگر ہم انفرادی طور پر اللہ کو راضی کرنا چاہیں گے تو کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ جان ہے تو جہان ہے۔ جان رہے گی تو مذہب بھی زندہ رہے گا اور عبادتیں بھی۔'

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مولانا رحمان شمس کا مزید کہنا تھا کہ 'جو لوگ پچھلے سال زکوٰۃ دینے کی پوزیشن میں تھے اس سال لینے کی پوزیشن میں ہیں۔ سری نگر کے ایک بڑے تاجر پیشہ شخص نے تین چار دن پہلے مجھے فون کیا اور کہا کہ میں خودکشی کرنا چاہتا ہوں، آپ مجھے اس کی اجازت دیں۔ جب میں نے وجہ پوچھی تو انہوں نے بتایا کہ میرا پورا کاروبار ختم ہوچکا ہے اور بینک کا قرضہ ادا نہ کر پانے کی وجہ سے میں زندگی سے تنگ آچکا ہوں۔'

انہوں نے کہا: 'کچھ باہری قوتیں ہیں جو موجودہ حالات میں بھی کشمیریوں کو مزید پریشان کرنا چاہتی یں۔ بھارتی ریاستوں کے مقابلے میں یہاں لاک ڈاؤن زیادہ ہی سخت ہے۔ تقریباً ہر طرح کی سرگرمی ٹھپ ہے۔'

کشمیر چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے سینیئر نائب صدر ناصر حمید خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ایک سال سے جاری لاک ڈاؤن کی وجہ سے ہمارا کاروباری طبقہ بہت پریشان ہے۔

'عید کے موقعے پر یہ طبقہ اچھی کمائی کرتا تھا لیکن ہمارے ہاں یہ مسلسل تیسری عید ہے جو لاک ڈاؤن کے سائے میں گزری ہے۔ عید الاضحیٰ کے موقع پر دکانیں اور دیگر تجارتی مراکز کھولنے کے لیے دو دن دیے گئے لیکن اس میں بھی کنفیوژن تھی کہ کب تجارتی سرگرمیاں شروع کرنی ہیں اور کب بند کرنی ہیں۔'

ناصر حمید نے کہا: 'کشمیر کی معیشت کو اس ایک سال کے دوران 40 ہزار کروڑ روپے یعنی 5.3 ملین ڈالر کے نقصان سے دوچار ہونا پڑا ہے۔ معیشت کو ہر دن ایک سو سے 120 کروڑ روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔'

'حکومت نے اب کان کنی کے ٹھیکے غیر مقامی ٹھیکیداروں کو دینے شروع کردیے ہیں جس کی وجہ سے یہاں کی معیشت کو مزید دھچکا لگنا طے ہے۔ ہمیں معیشت میں بہتری آنے کے مستقبل قریب میں کوئی آثار نظر نہیں آرہے ہیں۔'

'پچھلی عید پر ہمارے ساتھ دھوکہ ہوا'

دوسری جانب آل کشمیر ہول سیل مٹن ڈیلرز یونین کے جنرل سکریٹری معراج الدین گنائی نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ اس سال قربانی میں تقریباً 50 فیصد کمی دیکھنے کو ملی ہے۔

'جو قصاب عید کے موقع پر دو سو بھیڑیں فروخت کرتے تھے انہوں نے ایک سو بھی فروخت نہیں کیں۔ چونکہ ہمیں معلوم تھا کہ کرونا وائرس کی وجہ سے مانگ میں کمی ہوگی اس لیے ہم نے کم ہی تعداد میں بھیڑیں باہر سے منگوائی تھیں۔ پچھلی عید الاضحیٰ کے موقع پر ہمارے ساتھ بہت بڑا دھوکہ ہوا تھا۔'

انہوں نے مزید بتایا: 'ہم اُس وقت حکومتی عہدیداروں کے پاس گئے تھے اور ان سے کہا تھا کہ افواہیں ہیں کہ حالات بگڑ سکتے ہیں۔ ہمیں عید الاضحیٰ کے لیے بھارتی ریاستوں سے بھیڑیں لانی ہیں، آپ ہمیں بتائیں کہ ہمیں کیا کرنا چاہیے۔ انہوں نے ہمیں یقین دلایا تھا کہ کچھ نہیں ہونے والا ہے اور آپ پریشانی لیے بغیر باہر سے بھیڑیں لا سکتے ہیں، تاہم جب ہم نے باہر سے بھیڑیں لانا شروع کیں تو 4 اگست کو حکومت نے ہماری 150 گاڑیوں کو کشمیر کے داخلی پوائنٹ لکھن پور میں روک دیا اور جب وہ گاڑیاں کئی روز بعد یہاں پہنچیں تو بڑی تعداد میں بھیڑوں کو ہم نے مردہ پایا۔'

ساتھ ہی انہوں نے کہا: 'اب جو ہمارے پاس زندہ بھیڑیں تھیں ان کو خریدنے کے لیے خریدار نہیں ملے کیونکہ یہاں نہ صرف سخت لاک ڈاؤن نافذ تھا بلکہ مواصلاتی خدمات بھی کلی طور پر بند تھیں۔ ہم نے جب دو ماہ بعد نقصان کا تخمینہ لگایا تو وہ 20 سے 25 کروڑ روپے بنتا تھا۔ ہم نے بعد ازاں حکومت کو ایک تحریری درخواست پیش کی تھی کہ نقصان کا ازالہ کیا جائے لیکن کہیں سے کوئی مدد نہیں آئی۔'

کشمیر میں جہاں حکومتی عہدیداروں اور بھارت نواز سیاسی جماعتوں نے بیانات جاری کر کے لوگوں کو عید الاضحیٰ کی مبارکباد پیش کی ہے وہیں علیحدگی پسند تنظیموں کی طرف سے ایسے کوئی بیانات سامنے نہیں آئے ہیں جس کی وجہ سے مقامی لوگ حیرت میں ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا