کشمیر: معیشت تباہ، عوام پر تکالیف اور مایوسی کا راج

کشمیر کی نیم خودمختار حیثیت کو ختم کیے ہوئے ایک سال ہو گیا ہے، شہریوں کا کہنا ہے کہ پانچ اگست کو جو دھچکہ لگا اس کے اثرات ابھی کم نہیں ہوئے اور کشمیری عوام کو دیوار کے ساتھ لگا دیا گیا ہے۔

پانچ اگست 2019 کو بھارتی حکومت نے آئین میں تبدیلی کرکے آرٹیکل 370 ختم کرتے ہوئے اپنے زیر انتظام کشمیر کی خصوصی نیم خودمختار حیثیت کردی اور وہاں حالات کو قابو میں رکھنے کے لیے لاک ڈاؤن جاری رکھا۔ اس فیصلے کو ایک سال ہوگیا ہے اور کشمیر میں تکالیف اور مایوسی کا راج ہے۔

خبررساں ادارے اے ایف پی کے مطابق بھارت کے زیرانتظام کشمیر میں لاک ڈاؤن کا ایک مقصد منتازع خطے پر اپنی گرفت مضبوط کرنا بھی تھا لیکن نئی دہلی کے اس اقدام سے علاقائی معیشت تباہی اور لوگ مایوسی کا شکار ہو کر رہ گئے ہیں۔

گذشتہ سال بھارتی فوج کی جانب سے نافذ کیے گئے لاک ڈاؤن کے بعد اس سال اس وقت صورت حال مزید بگڑ گئی جب کرونا (کورونا) وائرس کا پھیلاؤ روکنے کے لیے پابندیوں میں اضافہ کیا گیا۔ خارداروں تاروں سے سڑکوں کی بندش سے مسلم اکثریتی علاقے میں معمولات زندگی معطل ہو کر رہ گئے اور لاکھوں لوگ بے روزگار ہو گئے۔

صحت کے شعبے کے کارکن کہتے ہیں کہ مسلسل پابندیوں نے کشمیریوں کی ذہنی صحت کے بحران کو مزید گھمبیر بنا دیا ہے جب کہ کئی دہائیوں سے جاری لڑائی کی وجہ سے لوگ پہلے ہی مسائل کا شکار تھے۔ عسکریت پسندوں کے خلاف فوجی کارروائیوں میں ہونے والی ہلاکتیں 10 برس میں سب سے زیادہ ہونے جا رہی ہیں۔

 جموں و کشمیر کو بھارت میں ضم کرنے کے اقدام کو ایک سال مکمل ہونے پرپورے علاقے میں دو روز کے لیے کرفیو لگا دیا گیا ہے۔

پولیس کی گاڑیاں سری نگر میں مسلسل گشت کر رہی ہیں جب کہ پولیس افسر میگا فون پر اعلان کر کے لوگوں کو گھروں میں رہنے کی ہدائت کر رہے ہیں۔

 ہمالیائی خطہ ایٹمی ہتھیاروں سے لیس بھارت اور پاکستان کے درمیان طویل عرصے سے ایک فلیش پوائنٹ چلا آ رہا ہے۔

مودی سرکار کی جانب سے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کیے جانے کے بعد بڑے پیمانے پر سیکیورٹی آپریشن شروع کیا گیا اور بڑی تعداد میں فوج نے سری نگر شہر کی سڑکوں پر گشت شروع کردیا۔ کئی ماہ کے لیے انٹرنیٹ سروس بند کر دی گئی اور سینکڑوں سیاست دانوں اور کارکنوں کو گرفتار کر لیا گیا۔

اس سب سے کشمیر کی پہلے سے کمزور معیشت پر بدترین اثرات مرتب ہوئے۔ دکانوں اور چھوٹے کاروبار کی بندش کے نتائج بھارت میں کرونا وائرس کے پھیلاؤ کے بعد نافذ کیے گئے لاک ڈاؤن کی وجہ سے مزید سنگین ہوئے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

نذیراحمد شیخ بھی متاثرہ افراد میں شامل ہیں۔ وہ بس کنڈکٹر تھے لیکن بے روزگار ہونے کے بعد انہیں ابھی تک کام نہیں ملا۔ کشمیر میں لڑائی کے طویل اور سخت تجربے کے باجود 50 سالہ نذیر کہتے ہیں حالات اتنے خراب کبھی نہیں ہوئے جتنے اب ہیں۔

انہوں نے کہا: 'میں نے بہت سے کرفیو اور لاک ڈاؤن دیکھے ہیں لیکن یہ لاک ڈاؤن میرے لیے سب سے زیادہ تکلیف دہ ہے۔'

کرونا وائرس کا بحران

کشمیر ایوان صنعت و تجارت کے مطابق بھارت کے زیرانتظام کشمیر میں 2019 کے اختتام تک پانچ لاکھ افراد بے روزگار ہو چکے تھے۔

حارث ڈلو اشتہارات کے کاروبار سے وابستہ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ سینیٹائرز اور کرونا وائرس سے بچنے کے لیے دوسرا سامان فروخت کرکے ان کے لیے اپنے 25 ملازمین کو تنخواہ دینا مشکل ہوگیا ہے۔

انہوں نے کہا: 'بے یقینی میں ہر روز اضافہ ہو رہا ہے۔ مجھے اپنے کارکنوں کو نکالنا ہو گا۔ بینک کے سود کا بوجھ بڑھ رہا ہے۔ صورت حال سنبھالنا مشکل ہو جائے گا۔

بھارت کے زیرانتظام کشمیر میں مارچ سے کرونا وائرس کے 20 ہزار مریض اور چار سو اموات سامنے آ چکی ہیں۔ گذشتہ ماہ وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد بڑھنے کے بعد ایک بار پھرلاک ڈاؤن نافذ کر  دیا گیا۔

علاقے میں مواصلاتی لاک ڈاؤن میں محض جزوری نرمی کی گئی تھی اور کشمیر میں موجود ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ وائرس کے حوالے سے آن لائن شیئر کی گئی معلومات تک رسائی میں رکاوٹ اور پابندیوں کی وجہ سے وبا سے نمٹنے کی کوششیں متاثر ہو رہی ہیں۔

 

گذشتہ سال جب کشمیر کی نیم خودمختار حیثیت ختم کی گئی تھی تو بھارتی حکام نے استحکام  اور ترقی کے لیے اقدامات کا وعدہ کیا تھا لیکن تجزیہ کار کہتے ہیں کہ ترقی اور معیشت کی بہتری کے اقدامات کے آثار کم ہی ہیں۔

امریکہ کی براؤن یونیورسٹی میں جنوبی ایشیا اور سلامتی کے امور کے ماہر اشتوش ورشنی کے مطابق سرمایہ کاری کے بغیر ترقی کا وعدہ پورا نہیں کیا جا  سکتا۔

کشمیریوں کو دیوار کے ساتھ لگا دیا گیا

علیحدگی پسند جنگجوؤں نے 1989 میں بھارت کے زیرانتظام کشمیر میں بھارتی حکمرانی کے خلاف ایک ہمہ گیر تحریک شروع  کی تھی۔ اس لڑائی میں ہزاروں کشمیری مارے جا چکے ہیں۔ تحریک شروع ہونے کے بعد علاقے میں لاکھوں کی تعداد فوج تعینات کر دی گئی۔

مودی سرکار کا اصرار ہے کہ گذشتہ سال اٹھائے جانے والے قدم کا مقصد لڑائی ختم کروانا، ترقی کا عمل تیز کرنا اور ان اقلیتوں کو حقوق دینا تھا جنہیں زبردستی کشمیر سے جانے پر مجبور کیا گیا۔

دوسری جانب بہت کشمیریوں کا کہنا ہے کہ انہیں بھارتی حکمرانی کو چیلنج کرنے اور ان علیحدگی پسندوں کی بڑے پیمانے پر حمائت کی سزا دی جا رہی ہے جو آزادی اور پاکستان کے ساتھ الحاق چاہتے ہیں

سول سوسائیٹی کے ان ارکان نے جنہوں نے علاقے کا دورہ کیا پیر کو کہا ہے کہ کشمیری عوام نے بھارت کی سیاسی قیادت پر اعتماد کرنا بند کر دیا ہے۔

جائزوں کے مطابق تقریباً آدھے کشمیری نوجوانوں کو کسی نہ کسی دماغی بیماری کا سامنا ہے اور ڈاکٹر جنہیں کھلے عام بات کرنے سے روک دیا گیا ہے ان کا کہنا ہے کہ گذشتہ برس اگست کے بعد سے صورت حال بہت خراب ہوئی ہے جس کی وجہ سے کریک ڈاؤن اور کرونا وائرس کی وجہ سے ہونے والا لاک ڈاؤن ہے۔

حالیہ مہینوں میں بھارتی فوج نے عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائیوں میں اضافہ کر دیا ہے اور سال کے پہلے چھ ماہ میں ہونے والی جھڑپوں میں 229 افراد مارے جا چکے ہیں جن میں 32 شہری بھی شامل ہیں۔

پولیس نے ہلاک ہونے والے جنگجوؤں کی لاشیں ورثا کے حوالے کرنا بند کر دیا ہے۔ بڑے جنازوں سے بچنے کے لیے ان لاشوں کو دور دراز کے علاقوں میں دفن کر دیا جاتا ہے۔

کشمیر مؤرخ اور سیاسی تجزیہ کار صدیق واحد کہتے ہیں پانچ اگست کو جو دھچکہ لگا اس کے اثرات ابھی کم نہیں ہوئے۔ کشمیری عوام کو دیوار کے ساتھ لگا دیا گیا ہے۔ وہ ہمیشہ خاموش نہیں رہیں گے۔

زیادہ پڑھی جانے والی ملٹی میڈیا