احتساب عدالتوں کی کمزوریاں کیسے دور کی جائیں؟

اگر اب سیاسی جماعتوں اور بالخصوص پارلیمنٹ نے اپنا کردار ادا نہ کیا تو پھر شاید پاکستان میں شفاف اور غیرجانب دار احتساب کا خواب طویل عرصے تک شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکے گا۔

حالیہ ترمیمی اور اصلاحاتی عمل سے کم از کم کرپشن مقدمات کی حد تک پیش رفت کی جا سکتی ہے۔

قومی احتساب بیورو (نیب) کے چیئرمین کے لامحدود صوابدیدی اختیارات پر قدغن اور نیب کے جانب دار اور سیاسی استعمال کے تاثر سے خود نیب ہی کے خاتمے اور ایک نئے احتسابی نظام کی تشکیل کی بحث شدت اختیار کر گئی ہے۔

تاہم ترمیم یا تشکیل جدید کے ان مباحثوں میں جو بنیادی اور کلیدی امر فی الوقت نظروں سے اوجھل ہے اور جس کی اصلاح کے بغیر فوری، شفاف اور غیرجانب دار احتساب کی منزل حاصل نہیں ہو سکتی وہ نیب قوانین کے تحت قائم کردہ خصوصی احتساب عدالتوں کا قیام، ججوں کی تعیناتی کی شرائط، طریقہ کار اور احتساب عدالتوں کی کارکردگی کا غیرجانب دار تجزیہ اور ملکی مفاد، ضروریات اور مقاصد سے ہم آہنگ پالیسی اور قانون سازی کا تعین ہے۔

نیب قانون کے تحت بیورو کے دائرہ اختیار میں آنے والے مقدمات یعنی چیئرمین نیب کے دائر کردہ ریفرنس میں نامزد ملزمان کے خلاف مقدمات ’احتساب کی خصوصی عدالت‘ میں چلائے جاتے ہیں۔ قومی احتساب آرڈیننس کی دفعہ 5 اے کے مطابق اس عہدے  پر صرف حاضر سروس ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کو ہی تین سال کی مدت کے لیے تعینات کیا جا سکتا ہے۔

قانون ان ججوں کی اگلی مدت میں توسیع یا عدم توسیع کے حوالے سے خاموش ہے لہٰذا عدالتی روایت یہی ہے کہ ان ججوں کو اگلی مدت کے لیے توسیع دی جا سکتی ہے۔ ان خصوصی عدالتوں میں جج کی تعیناتی متعلقہ صوبے کے چیف جسٹس اور وفاقی وزارت قانون کی ہم آہنگی سے ہی ممکن ہوتی ہے۔

قانون کی رو سے تعینات کردہ جج کا صرف حاضر سروس ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج ہونا ہی کافی ہے۔ اس کے علاوہ وائٹ کالر کرائمز سے متعلقہ علوم، تجربہ اور مہارت کی کوئی اضافی شرط قانون میں موجود نہیں ہے۔ لہٰذا عمومی عدالتوں میں کام کے طویل تجربے کے حامل جج ہی احتساب عدالتوں کے خصوصی جج تعینات کیے جاتے ہیں۔

ان ججوں کو احتساب عدالت کے جج ہونے کی بنیاد پر ’خصوصی مراعات‘ کا پیکج دیا جاتا ہے جو اسی عہدے کے حامل عمومی عدالتوں میں تعینات ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کو حاصل نہیں۔ یہ خصوصی پیکج عام جج کو حاصل مراعات سے کہیں زیادہ ہوتا ہے جس کے باعث یہ تعیناتی عمومی ججوں کے لیے پرکشش بھی ہوتی ہے اور امتیازی حیثیت کی حامل بھی۔ 

احتساب عدالتیں ملک کے بڑے شہروں کراچی، لاہور، ملتان، سکھر، راولپنڈی، اسلام آباد اور پشاور میں قائم کی گئی ہیں اس لیے ان خصوصی عدالتوں میں تعینات جج بڑے شہروں میں ہی فرائض سر انجام دیتے ہیں۔

قانون اس حوالے سے بھی خاموش ہے کہ ان عدالتوں میں تعیناتی کے لیے حاضر سروس ججوں میں سینیارٹی کا معیار کیا ہوگا لہٰذا بالعموم ان عدالتوں میں تعیناتی وزارت قانون اور متعلقہ چیف جسٹس کے انتظامی اختیارات کے تحت ہی عمل میں آتی ہے اور اس حوالے سے کوئی باقاعدہ طریقہ کار موجود نہیں۔

مخصوص نوعیت کے مقدمات کے  لیے خصوصی عدالتوں کا قیام دراصل قانون میں ایک استثنائی عمل ہے جس کا محرک مخصوص جرائم کے ساتھ زیادہ تندہی اور موثر انداز میں نبرد آزما ہونے کے عوامی مفاد کا جذبہ کار فرما ہوتا ہے تاکہ سنگین جرائم کو سرعت سے نمٹایا جائے اور ان مقدمات کی خصوصی نوعیت کے اعتبار سے ان جرائم کا ادراک رکھنے والے ’سپیشلائیذڈ جج‘ اور ماہرین انصاف کے منصب پر براجمان ہوں۔

مخصوص جرائم کے لیے خصوصی عدالتوں کے قیام پر ماہرین قانون کی آرا اور تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ دنیا کے کچھ ممالک میں خصوصی عدالتوں کا قیام انہی دو مقاصد کے حصول کے لیے ایک استثنائی صورت کے طور پر بادل ناخواستہ قبول کیا گیا۔ اور یہ امر تفصیل کا محتاج نہیں کہ ایسی عدالتوں کے قیام اور ان کو چلانے کے لیے بےتحاشا وسائل خرچ ہوتے ہیں جس کا سارا بوجھ بالآخر عوام برداشت کرتے ہیں۔

پاکستان میں احتساب کی تاریخ اور ان خصوصی عدالتوں، بالخصوص احتساب عدالتوں، کی 20 سالہ تاریخ سے یہ حقیقت عیاں ہے کہ عملاً ان خصوصی عدالتوں میں مقدمات عمومی عدالتوں کی بابت کہیں زیادہ تاخیر کا شکار ہیں۔ ملزمان سالہا سال تک جیلوں میں بند رہتے ہیں اور مقدمات کے فیصلے تو درکنار فرد جرم عائد ہونے کا ابتدائی عمل بھی مکمل نہیں ہو پاتا۔

جہاں تک خصوصی عدالتوں کے جج حضرات کا وائٹ کالر کرائمز سے متعلقہ مطلوبہ استعداد، مہارت اور تجربہ کے حامل ہونے کا تعلق ہے، تو اس کا فقدان کسی دلیل کا محتاج نہیں۔ جو ڈسٹرکٹ اور سیشن جج صاحبان عمومی عدالتوں میں اپنی عمر کا بیشتر حصہ صرف کر چکے ہوں، اپنے پروفیشنل کیریئر کے تقریباً اختتام کے قریب وائٹ کالر کرائمز کی نزاکتوں اور باریکیوں کی شُدمد ہونا ان کے  لیے تقریباً ناممکنات میں سے ہے۔

یقیناً ایسے جج حضرات قتل، مار پیٹ، دھوکہ دہی، سول، فیملی اور کرایہ داری مقدمات کا تو وسیع تجربہ رکھتے ہیں لیکن فوری طور پر احتساب عدالتوں میں دائر پیچیدہ منی ٹریل، بینکنگ ٹرانزیکشنز اور تہہ در تہہ پردوں میں چھپے وائٹ کالر کرائم کو سمجھنے کے لیے ایک عمر درکار ہے۔ اس وجہ سے ان مقدمات کے فیصلے اتنے مضبوط نہیں ہوتے اور آمدہ شہادت کو اس مہارت سے نہیں پرکھا جاتا کہ ملک کی اعلیٰ عدلیہ کے جج صاحبان کے سامنے پذیرائی حاصل کر پائیں اور نتیجتاً فیصلوں میں نقائص کی بنیاد پراعلیٰ عدالتیں دوران اپیل بیشتر مجرموں کو بری کر دیتی ہیں۔

اس وقت ملک میں کرپشن اور اس سے متعلقہ جرائم کے مقدمات کا ٹرائل کرنے کے لیے بنیادی طور پر چار قسم کی خصوصی عدالتیں کام کر رہی ہیں، جن میں اینٹی کرپشن کورٹس، احتساب عدالتیں، سپشل کورٹس برائے بینکنگ جرائم اور سپیشل جج سینڑل کی عدالتیں شامل ہیں۔

ملک میں کرپشن اور بدعنوانی کے انڈکس میں مسلسل اضافے سے یہ واضح ہے کہ معمولی فرق کے ساتھ ایک ہی نوعیت کے جرائم کے فیصلے کے لیے مختلف عدالتوں کا قیام بالکل سود مند ثابت نہیں ہوا۔ غریب عوام پر ان عدالتوں کو چلانے کا بوجھ اپنی جگہ ہے اور ملکی دولت کی لوٹ کھسوٹ الگ سے جاری ہے۔

اس  لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ پارلیمان موثر قانون سازی کرتے ہوئے یہ یقینی بنائے کہ احتساب عدالتوں میں ایسے جج تعینات ہوں جو منی لانڈرنگ، جعلی اکاؤنٹس، بینکنگ ذرائع، آف شور کمپنیوں اور دیگر ذرائع سے حاصل کی گئی وائٹ کالر کرپشن سے بخوبی واقف ہوں۔ اس شعبے کے ماہرین سینیئر وکلا، ماہرین تحقیق و تفتیش کار اور ان موضوعات پر دسترس کے حامل اعلیٰ عدلیہ کے ریٹائرڈ جج حضرات کی پارلیمنٹ کے ذریعے تعیناتی کا طریقہ کار بھی وضع کیا جا سکتا ہے۔

ان عدالتوں میں تعیناتی کے لیے محض چیف جسٹس کی انتظامی رائے اور وزارت قانون کا کردار مکمل طور پر ختم کیا جانا ناصرف نظام انصاف کی بہتری بلکہ احتساب کے عمل کو انتظامیہ سے بالکل الگ کرنے کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ قانون کا یہ سقم اس اعتبار سے بھی انتہائی مہلک ہے کہ کوئی حاضر سروس ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج حکومت یا وزارت قانون سے اس امید پر اچھے تعلقات نہ بنائے رکھے کہ اسے مستقبل میں کسی خصوصی عدالت میں تعیناتی کے ذریعے خصوصی مراعات حاصل ہوں گی۔

یہ سقم پورے نظام انصاف کو دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے اور بدقسمتی سے پارلیمان اس میں اپنا کردار ادا نہیں کر سکی۔ جج ارشد ملک ویڈیو سکینڈل کیس سے بھی یہ عیاں ہے کہ ملک میں ایک سابق وزیر اعظم کے خلاف مقدمے میں فیصلہ ایک جج کے مس کنڈکٹ کی نظر ہو گیا اور وہ فیصلہ عدلیہ پر ایک مہیب سائے کی صورت برسوں منڈلاتا رہے گا۔

احتساب عدالت میں ایسا انصاف کا نظام ہو کہ انصاف ہوتا نظر آئے۔ اس اصول کی پیروی اور اس مقصد کے حصول کے  لیے سنگل جج کی بجائے ججوں کا ایک پینل، بینچ یا ٹریبونل تشکیل دیا جانا چاہیے، جس میں کم از کم تین افراد تعینات ہوں، جس میں جج کے ساتھ ایک ماہر قانون اور ماہر وائٹ کالر کرائم کو بھی شامل کیا جائے تاکہ میگا کرپشن کے کیسوں کو بطریق احسن پایہ تکمیل پہنچایا جائے۔

کرپشن کے مقدمات سے نمٹنے کے لیے چار قسم کی مختلف عدالتوں کو ختم کر کے مجوزہ بالا عدالت قائم کی جائے۔ عام فراڈ اور معمولی کرپشن اور رشوت کے مقدمات عمومی سیشن عدالتوں میں دائر کیے جائیں جبکہ کرپشن کے میگا مقدمات خصوصی عدالت میں آئیں۔

احتساب قوانین میں احتساب عدالت کے جج کے اختیارات کو زیادہ وسعت دی جائے۔ گرفتاری، ضمانت اور ریمانڈ کے اختیارات عدالت کو تفویض کرتے ہوئے مناسب ضابطہ کار وضع کیا جائے جس کے ذریعے ایک طرف چیئرمین نیب کے شتر بےمہار اختیارات کو لگام دی جا سکے تو دوسری جانب عدالتی صوابدید میں بھی کمی لائی جائے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کس نوعیت کے کیسوں، کتنی مالیت کی کرپشن کے کیسوں، کس عمر کے ملزموں، کس بیماری کے ملزموں اور کس نوعیت کے الزام کے حامل ملزموں، کتنے عرصے بعد اور کس مرحلے پر ملزموں کی ضمانت لی جا سکتی ہے، ان سب کے لیے باقاعدہ طریقہ کار اور رولز وضع ہونے چاہیں۔

ملزموں کے بیرون ملک سفر کی اجازت، ای سی ایل پر نام، جائیداد کی فروخت کی اجازت، اکاؤنٹس سے تعامل کی اجازت، نیب کے مقدمے میں تفتیش بند کرنے کے اختیارات، ایسے بنیادی اہمیت کے حامل امور ہیں جن سے ملزمان کے بنیادی انسانی حقوق، شہری آزادیاں، کاروبار عزت اور ان کے خاندانوں کی زندگیاں وابستہ ہیں۔

ایسے اہم امور کو مناسب قانون سازی کے بغیر محض نیب یا محدود اختیارات کی حامل احتساب عدالت کی صوابدید پر چھوڑنا ایسا قانونی نقص ہے جو پارلیمان کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے اور جس کی سزا بھی اکثر سیاست دان خود ہی بھگتتے ہیں۔

سابق چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے 17 جنوری، 2019 کو فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے عدالتی اصلاحات کے ضمن میں اپنے عمر بھر کے تجربے کا نچوڑ بیان کرتے ہوئے یہاں تک کہا تھا کہ ’تمام خصوصی عدالتوں کا خاتمہ کیا جانا چاہیے۔‘

انہوں نے اس خواہش کا اظہار بھی کیا تھا کہ تمام عدالتیں ایک نظام کار کے تحت چلیں۔ منشیات، بینکنگ، دہشت گردی، کرپشن، لیبر، انٹیلیکچوئل پراپرٹی، کنزیومر پروٹیکشن وغیرہ جیسی تمام عدالتیں ایک ہی ڈسٹرکٹ عدلیہ کے نظام میں پیوست ہوں اور ان کے مطابق اس عمل سے ’عدالتی اختیار سماعت کے بےجا تنازعات کے خاتمے اور مقدمات کے جلد فیصلوں میں مدد ملے گی۔‘  یہ منزل حاصل ہونے میں تو شاید وقت لگے لیکن حالیہ ترمیمی اور اصلاحاتی عمل سے کم از کم کرپشن مقدمات کی حد تک پیش رفت کی جا سکتی ہے۔

جسٹس مقبول باقر کے سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے نے پھر سے امید کی ایک کرن روشن کی ہے۔ اب اگرسیاسی جماعتوں اور بالخصوص پارلیمنٹ نے اپنا کردار ادا نہ کیا تو پھر شاید پاکستان میں شفاف اور غیرجانب دار احتساب کا خواب طویل عرصے تک شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکے گا۔

زیادہ پڑھی جانے والی سوشل