پاکستان کی خارجہ پالیسی‎

پاکستان ایک کمزور ریاست ہے جس کا الزام ہم کسی اور کو نہیں دے سکتے۔ ہماری کمزوری ہماری اپنے غلط فیصلوں کی وجہ سے ہے۔

(پی آئی ڈی)

پچھلے آٹھ دس سال سے حکومت اور پالیسی سازوں کو خارجہ پالیسی پر تجاویز بھیجتا ہوں۔ کچھ تجاویز انہوں نے حکومتی پالیسی کا حصہ بھی بنائیں جس پر ان کا شکریہ۔ ان میں یہ مشورہ بھی شامل تھا کہ شاہ محمود قریشی خارجہ کی بجائے وزارت داخلہ کے لیے زیادہ موزوں ہیں۔

سعودی عرب کے بارے میں ان کا بیان سفارتی معیار پر پورا نہیں اترتا اور انہوں نے اس تجویز کو خود ہی درست ثابت کر دیا۔ ان کے بیان کا مفہوم یہ ہے کہ سعودی عرب ہماری خارجہ پالیسی چلاتا ہے۔ اس بیان کے بعد انہیں عزت کے ساتھ مستعفی ہو جانا چاہیے۔ لیکن اس سے ہٹ کر ہماری خارجہ پالیسی کا اصل مسئلہ گہری سوچ، دوراندیشی کا فقدان اور جغرافیائی حالات اور تاریخ سے سبق نہ سیکھنا بھی نظر آتی ہے۔ میں یہ بات آپ کو سمجھانے کو کوشش کرتا ہوں۔

یہ تحریر آپ مصنف کی آواز میں یہاں سن بھی سکتے ہیں

 

مورخ پاکستان جیسے ملک کے لیے بٹّے ہوئے ملک کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔ یعنی ایسا ملک جو نظریاتی اور جغرافیائی طور پر اندر سے بٹا ہوا ہو۔ جغرافیائی طور پر ہم ایک بالکل نیا ملک ہیں جو تاریخ میں پہلے وجود نہیں رکھتا تھا۔ چین، افغانستان، بھارت اور ایران کئی ہزار سال تقریباً انہی سرحدوں میں ہیں جو آج کل ہیں۔ اس وجہ سے ان کی ایک تاریخی روش ہے جو ان کے خارجہ تعلقات میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔

پاکستان کے دو صوبے پنجاب اور سندھ جنوب مشرقی ایشیا کا حصہ رہے جبکہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان مرکزی ایشیا کے قریب ہیں۔ یعنی دو صوبے ہمیں جنوب مشرقی ایشیا کی طرف کھینچتے ہیں جبکہ دوسرے دو مرکزی ایشیا کی طرف۔ صرف یہی نہیں نظریاتی اور ثقافتی کھچاؤ اس کے علاوہ ہیں۔ اسلام سے گہری رغبت ہمیں مشرقی وسطی کی طرف لے جاتی ہے جبکہ ثقافتی طور پر ہم جنوبی اور مرکزی ایشیا کے زیادہ قریب ہیں۔

یہ تمام تضادات ہماری خارجہ پالیسی پر بہت اثر ڈالتے ہیں۔ خارجہ پالیسی بناتے وقت ہمیں ان تمام تضادات، قومی مفادات اور دوراندیشی کو نظر میں رکھنا چاہیے تھا جس میں ہم ناکام رہے جس کی وجہ سے ہماری خارجہ پالیسی انتشار کا شکار ہے اور اس میں مستقبل قریب کا مفاد حاوی ہے۔

ہمارا دوسرا مسئلہ یہ رہا کے ہم داخلی طور پر یہ فیصلہ نہ کرسکے کہ خارجہ پالیسی بناتے اور لاگو کرتے ہوئے سول اور فوجی پالیسی ساز کیا کردار ادا کریں گے۔ سول منتخب حکومت کی کوشش یہ رہی کہ وہ خارجہ پالیسی پر حاوی رہے جبکہ فوجی ادارہ اس پر اپنی اجارہ داری چھوڑنے کو تیار نہیں۔

نواز شریف بھارت سے تعلقات ٹھیک کرنا چاہتے تھے لیکن فوج نے اس بات کو پسند نہ کیا جس کی وجہ سے دونوں ملکوں میں تناؤ کی کیفیت برقرار رہی۔ فوجی حکمران جب خود حکومت میں رہے تو تعلقات بہتر کرنے کی کوشش کرتے رہے لیکن اس وقت بھارت نے زیادہ دلچسپی نہ دکھائی۔ ایران، افغانستان اور سعودی عرب کے ساتھ تعلقات میں بھی سول اور فوجی لیڈروں میں مفاہمت نہ ہوسکی جس کا نقصان پاکستان کو ہوا۔

اگر آپ کو یاد ہو تو وزیر اعظم نواز شریف کے دور میں ایرانی صدر روحانی کے دورہ پاکستان کے دوران فوج نے ایک سخت بیان جاری کیا جو کسی طرح بھی سفارتی آداب کے خلاف تھا۔ کوئی ملک اپنے گھر آئے ہوئے مہمان کی ہر طرح سے تکریم کرتا ہے چاہے تعلقات کیسے ہی کیوں نہ ہوں۔

عمران خان کی حکومت میں تمام آثار اسی بات کے ہیں کہ خارجہ پالیسی سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ چلا رہی ہے۔ ہر غیرملکی مہمان جو ہمارے ملک کا دورہ کرتا ہے پہلے جی ایچ کیو جاتا ہے اور پھر اگر وقت بچے تو وزیر خارجہ سے بھی مل لیتا ہے۔ شاہ محمود قریشی جیسا کمزور وزیر خارجہ رکھنے کی بھی بنیادی وجہ یہی ہے۔

تیسرا مسئلہ یہ ہے کہ وزارت خارجہ ایک کمزور ادارہ ہے۔ اس وزارت کے پاس نہ صرف وسائل کی کمی ہے بلکہ صلاحیت کا فقدان بھی نظر آتا ہے۔ ہمارے سفیروں کی تعیناتی بھی ذاتی پسند نہ پسند کے مطابق کی جاتی ہے۔ ملیحہ لودھی کی کارکردگی اس سفیر سے بہت بہتر تھی جو آج کل اقوام متحدہ میں ہماری نمائندگی کر رہے ہیں۔ جو پیشہ ور سفیر بھی ہیں ان کی صلاحیت بھی بہت زیادہ پراعتماد نظر نہیں آتی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ادارے کے اندر تحقیق اور ماہرین سے مکالمے کا عمل بھی کمزور ہے۔ وزیر اعظم کو سال میں کم از کم ایک بار تمام سفیروں کی کانفرنس بلانی چاہیے جو آج تک باقاعدگی سے نہیں ہوئی ہے۔

چوتھا مسئلہ یہ ہے کہ چند ممالک کا ہماری خارجہ پالیسی پر گہرا سایہ ہے جس کا اثر ہمارے فیصلوں پر بھی پڑتا ہے۔ امریکہ، چین، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات وہ چند ممالک ہیں جو بہت اہم ہیں۔ امریکہ اور چین بڑے ملک ہیں اس لیے ان کا اثر ایک قدرتی امر ہے۔ ترکی نے بھی پچھلے سات آٹھ سال میں پاکستان میں اپنے اثر و رسوخ میں اضافہ کیا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ وہ بھی ہماری خارجہ پالیسی کو اپنے مفاد میں استعمال کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

ہمیں خود اس پر سوچنا چاہیے اور آئی ایس آئی کی یہ ذمہ داری ہونی چاہیے کے اس معاملے پر حکومت کو مطلع رکھے اور ایسے لوگوں کو جن کے بارے میں شواہد ہوں کے وہ دوسرے ملکوں کے زیرے اثر ہیں انہیں فیصلہ سازی کے عمل سے دور رکھا جائے۔ اس میں زیادتی، ناانصافی، انتقام اور ذاتی پسند نہ پسند نہیں ہونی چاہیے۔

پاکستان ایک کمزور ریاست ہے جس کا الزام ہم کسی اور کو نہیں دے سکتے۔ ہماری کمزوری ہماری اپنے غلط فیصلوں کی وجہ سے ہے۔ کوالالمپور کی میٹنگ کا بائیکاٹ ہماری کوتاہی تھی کے اس بات کو نہ سنبھال سکے اس کا الزام سعودی عرب کو نہیں دیا جا سکتا۔ دوسرے اداروں کی طرح وزارت خارجہ کو بھی اصلاحات کی ضرورت ہے۔ اب حل یہی ہے کہ اس ریاست کو نئے سرے تعمیر کرنا ہوگا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ