حراستی مراکز سے متعلق خیبرپختونخوا کا متنازع قانون: حقیقت کیا ہے؟

حیران کن طور پر 2018 تک پشاور ہائی کورٹ اس حقیقت سے لاعلم رہی  کہ ایسا کوئی آرڈیننس وفاقی حکومت کی رضامندگی سے 2011 میں پاس ہوا ہے، جس کے تحت فوج کو سابقہ فاٹا اور پاٹا میں حراستی مراکز بنانے یا کسی ملزم کو حراست میں لینے کی اتھارٹی دی گئی ہے۔

آٹھ اپریل 2018 کی اس تصویر میں قبائلی افراد  پشاور میں ایک مظاہرے میں اپنے لاپتہ رشتے داروں کی تصاویر اٹھائے شریک ہیں۔ (اے ایف پی)

رواں ماہ پانچ اگست کو خیبر پختونخوا میں صوبائی گورنر کے آرڈیننس (ایکشن ان ایڈ آف سول پاور) کے پورے صوبے میں نفاذ کو ایک سال پورا ہونے پر وکلا برادری اور سماجی طبقوں میں اس قانون کے حوالے سے بحث کا آغاز ہو گیا۔

یہ قانون بنیادی طور پر 2011 میں صدارتی آرڈیننس کے ذریعے سابقہ فاٹا اور پاٹا میں نافذ کیا گیا تھا اور اس میں مجاز افسران اور مسلح افواج کو اختیار دیا گیا تھا کہ مختلف علاقوں میں فوجی کارروائیوں کے دوران مشکوک افراد کو گرفتار کرکے انہیں حراستی مراکز میں قید کیاجا سکتا ہے۔

تاہم 2018 میں 25 ویں ترمیم کے بعد جب قبائلی اضلاع خیبر پختونخوا میں ضم ہوئے تو صوبائی گورنر نے ایک آرڈیننس کے ذریعے اسے پورے خیبرپختونخوا میں نافذ کر دیا۔

لیکن حیران کن طور پر 2018 تک پشاور ہائی کورٹ اس حقیقت سے لاعلم رہی کہ ایسا کوئی آرڈیننس وفاقی حکومت کی رضامندگی سے 2011 میں پاس ہوا ہے، جس کے تحت فوج کو سابقہ فاٹا اور پاٹا میں حراستی مراکز بنانے، کسی ملزم کو حراست میں لینے اور ان کی جائیداد کو ضبط کرنے کی اتھارٹی دی گئی ہے۔

اس قانون کو ہائی کورٹ میں چیلنج کرنے والے وکیل شبیر حسین گگیانی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ انہیں ایکشن ان ایڈ آف سول پاور آرڈیننس کا علم لاپتہ افراد کے مقدمات حل کرنے کے دوران ہوا، جس کے بعد انہوں نے اسے ہائی کورٹ میں اس بنیاد پر چیلنج کیا کہ جب قبائلی اضلاع خیبر پختونخوا میں ضم ہو چکے ہیں تو پھر اس قانون کا کیا جواز بنتا ہے۔

شبیر حسین گگیانی کے مطابق: ’میرے اس بیان کے خلاف گورنر خیبرپختونخوا نے صوبائی آرڈیننس کے ذریعے پانچ اگست 2019 کو یہ قانون پورے خیبر پختونخوا میں نافذ کردیا، لہذا میں نے اس صوبائی آرڈیننس کو بھی چیلنج کرتے ہوئے اسے صوبے کے ساتھ امتیازی سلوک قرار دیا اور تمام بیانات اور دلائل کے بعد ہائی کورٹ نے میرے حق میں فیصلہ دیا، لیکن خیبرپختونخوا حکومت، گورنر، حراستی مراکز کی انتظامیہ اور وفاقی حکومت نے ہائی کورٹ کے اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا۔ ‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے مزید بتایا کہ پشاور ہائی کورٹ نے ان کے حق میں فیصلہ دیتے ہوئے حراستی مراکز کو سب جیلوں میں تبدیل کرنے کا حکم دینے کے ساتھ ساتھ آئی جی جیل خانہ جات اور ہوم سیکرٹری کو سکروٹنی کمیٹی تشکیل دینے اور ایک تفصیلی رپورٹ تیار کرنے کا حکم دیا تھا۔

’لیکن سپریم کورٹ کی جانب سے حکم آیا کہ حراستی مراکز میں انسپکٹر جنرل جیل خانہ جات کا کوئی عمل دخل نہیں ہوگا اور یہ مراکز فی الحال سکیورٹی فورسز کی تحویل میں رہیں گے۔ یہ مقدمہ ابھی بھی سپریم کورٹ میں چل رہا ہے۔‘

شبیر حسین گگیانی نے آئینی نقطہ نظر سے اس کیس کو چیلنج کرنے کی وجہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ آئین اور قانون کے مطابق کسی بھی شخص کو بغیر کسی ثبوت کے اس وقت تک گرفتار نہیں کیا جا سکتا، جب تک عدالت گرفتاری کے وارنٹ جاری نہ کرے۔

انہوں نے بتایا کہ قانون یہ بھی کہتا ہے کہ کسی شخص کی گرفتاری کے بعد اس کو 24 گھنٹوں کے اندر عدالت کے سامنے پیش کرکے کسٹڈی کی درخواست کی جائے گی اور  عدالت سے حاصل شدہ کسٹڈی کی مدت پوری ہونے کے بعد دوبارہ عدالت سے رجوع کیا جائے گا۔

شبیر حسین گگیانی کے مطابق:’ بیانات، دلائل اور گواہان کی روشنی میں عدالت فیصلہ سناکر ملزمان کو سزا سناتی ہے، تاہم 2011 کے ایکشن ایڈ صدارتی آرڈیننس میں ایسی کوئی شق نہیں ہے، یہی وجہ تھی کہ میں نے اس قانون کو کالعدم قرار دینے کی درخواست کی تھی۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ ان کی اطلاعات کے مطابق آٹھ ہزار سے زائد لوگ کئی برسوں سے سوات سمیت قبائلی اضلاع کے مختلف حراستی مراکز میں قید ہیں۔

’پاکستانی فوج کے خلاف مسلسل پروپیگنڈہ‘

دوسری جانب گگیانی کے برعکس دفاعی تجزیہ کار بریگیڈیئر ریٹائرڈ محمود شاہ کا کہنا ہے کہ دراصل اس آرڈیننس اور فوج  کے حوالے سے غلط فہمیاں پیدا ہوئی ہیں۔

انہوں نے کہا: ’اگر منطق کی رُو سے دیکھا جائے تو فوج ہزاروں لوگوں کو برسوں کسی حراستی مرکز میں رکھ ہی نہیں سکتی۔ یہ خود ایک بہت بڑا بجٹ بنتا ہے۔ لاپتہ افراد کے حوالے سے احتجاج کرنے والے فہرست تو ہزاروں کی دیتے ہیں لیکن ایسے دھرنوں میں تعداد صرف دو ڈھائی سو لوگوں کی ہوتی ہے۔ ان ہزاروں لوگوں کے خاندان کہاں ہیں؟‘

محمود شاہ نے مزید کہا کہ پاکستانی فوج کے خلاف مسلسل ایک پروپیگنڈہ چل رہا ہے، کیونکہ یہ ہر کسی کو معلوم ہے کہ فوج ہی اس ملک کو جوڑے ہوئے ہے اور اسی لیے صرف فوج کو ہی ٹارگٹ کیا جارہا ہے۔

2011 کے آرڈیننس سے متعلق انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ان کے ذاتی خیال میں اگر حالات ٹھیک ہیں اور سابقہ قبائلی اضلاع اب خیبرپختونخوا کا حصہ بن چکے ہیں تو اس آرڈیننس کو بھی ختم ہونا چاہیے۔

بریگیڈیئر ریٹائرڈ محمود شاہ نے کہا: ’چیزیں منطق کے مطابق چلتی ہیں۔اگر اس قانون کی ضرورت نہیں رہی ہے تو اس پر ضرور غور و حوض ہو رہا ہوگا۔ فوج ہمیشہ لا اینڈ آرڈرکے حالات میں بلائی جاتی ہے۔ قبائلی اضلاع میں فوج اس لیے بلائی گئی تھی کیونکہ وہاں بدامنی تھی۔ ایسے میں فوج تخریب کاروں کو براہ راست گرفتار کر سکتی ہے اور جب تک ان سے متعلق تفتیش مکمل نہیں ہوتی انہیں حراستی مرکز میں عارضی مدت تک رکھا جاسکتا ہے۔‘

محمودشاہ نے مزید کہا کہ ’ہر لاپتہ شخص کا الزام فوج پر لگانا ایک پروپیگنڈہ کے تحت ہو رہا ہے۔‘

پاکستانی فوج ہمیشہ لاپتہ افراد کے واقعات میں ملوث ہونے سے انکار کرتی رہی ہے اور فوج کے سابق ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے ایک پریس کانفرنس کے دوران قبائلی اضلاع سے لاپتہ افراد کے واقعات میں پاکستانی فوج اور خفیہ اداروں کے ملوث ہونے سے متعلق پشتون تحفظ موومنٹ کے دعوؤں کو چیلنج کیا تھا۔

ایکشن ان ایڈ آف سول پاور صدارتی قانون کی مخالفت کرنے والوں کا کہنا ہے کہ یہ قانون آئین سے متصادم ہے، جبکہ اس قانون کے حق میں بولنے والوں کا خیال ہے کہ ملک سے دہشت گردی کی لعنت کے خاتمے کے لیے افواج پاکستان اور  سکیورٹی اداروں کا کام آسان کرنے کے لیے ایسے قوانین کی موجودگی ناگزیر ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان