قلم کا دور ختم ہوا، اب ’کی بورڈ واریئرز‘ کا دور ہے

یقین کریں کہ اب کی بورڈ پر برق رفتاری کے ساتھ انگلیاں گھماتے تو ضرور ہیں لیکن اُس مزے کو ترستے ہیں جو کاغذ ی تحریر میں آتا تھا۔

(پکسابے)

ہمارے صاحبزادے نے کاپی اور قلم ہماری جانب بڑھایا اور فرمائش کی کہ کلاس کے آن لائن ہوم ورک میں کرونا وائرس پر مضمون لکھنے کا حکم ملا ہے ۔ ہم رف کاپی پر لکھ دیں تاکہ وہ آسانی کے ساتھ اِسے نقل کرلیں۔

سوچا کہ کرونا وائرس پر لکھنا تو ہمارے دائیں ہاتھ کا کام ہے۔ بائیں اس لیے نہیں کیونکہ ہم ’لیفٹی‘ جو نہیں۔ خیر جی دو تین پیراگراف قلم پکڑ کر بڑی مشکل سے لکھنے کے بعد موصوف کو دیے تو وہ بے اختیار ہنسنے لگے۔

دریافت کرنے پر فرمانے لگے کہ ’آپ کی ہینڈ رائٹنگ تو مجھ سے بھی زیادہ خراب ہے۔اتنی کاٹا پیٹی۔ سمجھ ہی نہیں آرہا کیا لکھا ہے۔ کاپی لے کر دیکھا تو واقعی شرمندگی ہوگئی۔ کس قدر خراب لکھائی ہوگئی تھی۔

ایک جملہ لکھا تو اسے کاٹ کر پھر سے دوسرا لکھ ڈالا۔ جگہ جگہ  اوور رائٹنگ کے چھوٹے چھوٹے ایسے 'چوزے' بنائے ہوئے تھے کہ واقعی وہ محاورہ درست لگنے لگا کہ 'لکھے موسیٰ پڑھے خود آ۔'

مزید تنقید اور مذاق سے بچنے کے لیے لیپ ٹاپ نکال کر کی پیڈ پر انگلیاں گھماتے ہوئے فٹافٹ مطلوبہ مضمون ٹائپ کرکے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ اب رائٹنگ بائیں نہیں بلکہ دونوں ہاتھوں کا کام ہو کر رہ گیا ہے۔ جو کاپی پر لکھا تھا اس کا پھر سے جائزہ لیا تو سمجھیں جیسے اسے دیکھ کر دل ڈوب سا گیا۔ یقین بھی نہیں آیا کہ یہ ہم نے تحریر کیے ہیں۔ کیونکہ کسی زمانے میں ہماری لکھائی مسلسل مشقوں کے باعث انتہائی خوبصورت تصور کی جاتی تھی(یہ ہمارا خیال تھا) ۔

اسے بہتر سے بہتر بنانے کے لیے ہم نے تو تختی تک پر لکھا تھا جو عین ممکن ہے کہ دور حاضر کے بچوں کو پتہ بھی نہیں ہو کہ یہ کیا بلا ہے۔ بازار میں کون سا اچھی لکھائی والا انک پین آیا اس کی تلاش کے لیے جوتیاں بھی بہت گھسیں۔ کس کمپنی کی نب کتنا خوبصورت تحریر کرتی ہے یہ فکر بھی ستاتی تھی۔

یہاں تک کہ خوش خطی کے لیے  ہولڈر پین  تک استعمال کر ڈالا۔ اساتذہ زور دیتے کہ بیٹا کچھ بھی ہوجائے بال پین استعمال نہیں کرنا کیونکہ یہ تحریر کو بدنما بنا دیتا ہے اور اس بات کو گرہ باندھ کر سنبھال لیا۔ مگر پیشہ ورانہ زندگی میں قدم رکھا تو یہاں تو بال پین کا وجود ہر موڑ پر پایا۔ جس کی نسل کے تین چار اور مختلف طرح کے پین ہر وقت جیب میں دبکے رہتے۔

کوئی تحریر لکھنی ہو، کاغذ قلم سنبھالیں اور پھر لکھنا شروع کردیں۔ کاٹا پیٹی تو ہوتی تھی لیکن ایسی کہ پڑھنے والے کا سر نہ چکر جائے۔ کسی پریس کانفرنس میں منٹس بھی کاغذ اور قلم کے سہارے نوٹ کیے جاتے۔ یہاں تک کہ مختلف انٹرویوز کے لیے جہاں ننھا منا سا ٹیپ ریکارڈر ہوتا وہیں نوٹ بک پر اس حوالے سے کچھ نہ کچھ نوٹ کیا جاتا۔پھردفتر آکر نیوز پرنٹ پر خبر یا مضمون بنا کر ایڈیٹر کو بڑھا دیا جاتا، جو اپنے حساب سے اس کی تدوین کرتے لیکن پھر دفاتر میں دھیرے دھیرے کاغذ قلم کا استعمال بھی نایاب ہوتا گیا۔ اخبار و جرائد سے کاتب حضرات کی چھٹی ہوئی اور ان کی جگہ کمپیوٹر بہادر آبیٹھے۔ جنہیں کمپیوٹر پر کمپوزنگ نہیں آتی وہ باقاعدہ اس کی تربیت حاصل کرنے لگے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے کمپیوٹر ہماری زندگی کا لازمی حصہ بن گیا اور اب یہ عالم ہے کہ اخبار ، ٹی وی چینلز سے لے کر ڈیجیٹل میڈیا تک میں ملازمت کے خواہش مند امیدواروں سے یہ معلوم بھی نہیں کیا جاتا کہ وہ اردو یا انگریزی ٹائپنگ کرسکتے ہیں کہ نہیں۔ کیونکہ اب یہ پوچھنے کی بات ہے اور ناہی اضافی قابلیت۔خیر قصہ یہاں تک پہنچ گیا ہے کہ اب تو پریس ریلیز تک باقاعدہ کمپوز شدہ بھی آنے لگی ہیں۔

پیپر لیس ماحول پر ایسا پابندی کے ساتھ عمل ہوا کہ اب دفتر سے رخصت کی 'مودبانہ درخواست' بھی کمپیوٹر پر ہی فارم بھر کر متعلقہ شعبے کو روانہ کی جاتی ہے۔اور جناب جب سے یہ اسمارٹ فون ہماری زندگیوں میں داخل ہوئے ہیں تو سہولت تو ملی لیکن جہاں بہت ساری چیزوں سے ناطہ ٹوٹا وہیں کاغذ قلم سنبھال کر لکھنے سے بھی۔ جو صاحبان لیپ ٹاپ یا کمپیوٹر کھول کر ٹائپ کرنے کے عادی تھے۔ اب بس کی پیڈ پر اپنی انگلیوں کی مہارت دکھاتے ہیں۔اب قلم کی کاٹ نہیں 'کی بورڈ وارئیرز' کا دور ہے۔ روایتی کاٹا پیٹی اور اوور رائٹنگ سے بھی جان چھڑ گئی ہے ۔ لکھا ہوا سمجھ نہیں آرہا تو کوئی بات نہیں بس ڈیلیٹ کا بٹن دبا دیں ۔ پلک جھپکتے میں سب کچھ اڑن چھو ہو جائے گا ۔

 اسمارٹ فون میں اردو کی پیڈ کی سخاوت نے مشکل اور آسان کردی ہے۔۔حد تو یہ ہوگئی کہ ای بینکنگ اور اے ٹی ایم نے جو تھوڑی بہت عادت تھی قلم سنبھال کر لکھنے کی اس سے بھی فراغت دلا دی۔ حال ہی میں کسی کو چیک لکھ کر دیا تو یقین جانیں ہمیں خود یاد نہیں آرہا تھا کہ بینک کھاتوں میں کون سے دست خط کیے تھے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

 کیا دور تھا وہ بھی جب کسی بھی نامور شخصیات کے آٹو گراف کے لیے ان کے آس پاس جم غفیر ہوتا۔ جو اس مشن میں کامیاب ہوجاتا وہ ہر ایک کو بتاتا کہ یہ دست خط بھلا کس کے ہیں۔ لیکن اب یہاں بھی نقشہ بدل گیا ہے۔ اب کاپی یا آٹو گراف بک اور قلم کی جگہ اسمارٹ فون نے لے لی۔ جس کے ذریعے سیلفیاں اتار کر ان لمحات کو محفوظ کیا جاتا ہے۔ گزشتہ دنوں ایک مشاعرے کی ویڈیو دیکھی تو حیران رہ گئے کیونکہ شاعر صاحب اپنے اسمارٹ فون کے ذریعے غزل جو سنا رہے تھے۔ لگا یہی کہ چلیں جی قلم‘ کاغذ اور ڈائری کے رشتے کی یہاں سے بھی چھٹی ہوئی۔ ذرا تصور کریں کہ خوشبوؤں سے سجے ان محبت ناموں کو جو خوبصورت لکھائی کے ساتھ آراستہ ہوتے۔ جن پر کئی فلمی گیت بھی بنے اور ہیروئن ٹھمک ٹھمک کر یہ بھی التجا کرتی رہی کہ 'چٹھی ذرا سیاں جی کے نام لکھ دے ۔'  اب دل کے گلشن کو کھلانے کے کئی اور ذرائع ہیں ۔ کم از کم پیار سے لکھے ہوئے سندیسے نہیں۔ حال یہ ہوگیا ہے کہ گانوں تک میں سوشل میڈیا کے ذریعے محبت کرنے یا ہونے کا پیغام مل رہا ہے۔

یقین کریں کہ اب کی بورڈ پر برق رفتاری کے ساتھ انگلیاں گھماتے تو ضرور ہیں لیکن اُس مزے کو ترستے ہیں جو کاغذ ی تحریر میں آتا تھا۔ خیر ضروری نہیں کہ سبھی ہماری طرح ہوں جو اسمارٹ فون، لیپ ٹاپ اور کمپیوٹر پر اپنے ذہن میں آنے والے تصورات اور خیالات کو منتقل کریں، ہاں یہ ضرور ہے کہ اب بھی کچھ فونٹین پین تو نظر نہیں بال پین سے لکھنے اور رکھنے کو چھوڑ نہیں پائے۔ جیسے ہمارے دفتری ساتھی نعیم الرحمان بھائی، جب کسی کو قلم سے ہی کچھ چھوٹا موٹا لکھنا اشد ضروری ہوتا ہے تو بلا جھجھک ان کی طرف بڑھتا ہے کیونکہ سبھی جانتے ہیں کہ ٹیکنالوجی کے اس تیز بہاؤ میں انہوں نے قلم کو اب بھی مضبوطی سے تھامے رکھا ہے ۔جاتے جاتے اب آپ کے لیے ایک سوال چھوڑے جاتے ہیں کہ ذہن پر زور دے کر بتائے گا کہ آخر ی بار کب کون سی تحریر کاغذ قلم سنبھال کر تحریر کی؟

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ