بڑے بے آبرو ہو کر ہم اپنے کوچے سے نکلے

قبائلی علاقوں میں دہشت گردوں کے خلاف فوجی آپریشن کے نتیجے میں اپنے گھر بار چھوڑ کر نقل مکانی کرنے والوں کی داستان

3 نومبر 2007 کی اس تصویر میں  میران شاہ میں میزائل حملے سے تباہ شدہ ایک گھر کا منظر (فائل تصویر: اے ایف پی)

'نومبر کی سردیوں میں رات کے چار بجے اچانک بمباری شروع ہو گئی۔ دوسری طرف فائرنگ کی تھرتھراہٹ سے پورا علاقہ گونج اُٹھا۔ چند لمحوں بعد ہی دو قدم دور ایک گھر سے زور دار دھماکے کی اواز آئی اور سناٹا چھا گیا۔ مسجدوں میں اعلان ہونے لگا کہ اپنے اپنے گھروں سے باہر نکل آئیں اور سارا گاؤں خالی کر دیں۔ '

یہ کہانی ہمیں دہشت گردی سے متاثرہ عابد اللہ محسود نے سنائی ہے، جو امن و امان کی صورتِ حال کے باعث اپنا علاقہ چھوڑ کر دربدر ہونے پر مجبور ہو گئے تھے۔ 

انہوں نے مزید بتایا: '2009 میں جب ہم نے وہ سارا منظر دیکھا کہ رات کے چار بجے ایک دم گولہ باری شروع ہو گئی اور فائرنگ کی تھرتھراہٹ محسوس ہونے لگی۔ اذان کے بعد مسجد میں اعلان ہونے لگے کہ اپنے گھروں سے نکل آئیں اور علاقہ چھوڑ کر چلے جائیں۔ اس دن آپریشن شروع ہوا اور ہم جلدی جلدی اپنے گھر والوں کو لے کر نکل پڑے۔ یہ وہ وقت تھا جب گھر کا تصور اور حقیقت دونوں ہی چکنا چور ہوتے نظر آرہے تھے۔'

انہوں نے بتایا کہ ہم نے 13 سال کا بچپن اپنے گاؤں گُرگُرے میں ہی گزارا لیکن آپریشن شروع ہوا تو ہم نقل مکانی کرکے اپنے رشتہ داروں کے یہاں ٹانک آ گئے۔ 

عابداللہ محسود کے مطابق: 'میرے دو چھوٹے بھائی اور ایک بہن ہے۔ میں نے پری میڈیکل ایف ایس سی تک تعلیم ٹانک سے ہی حاصل کی۔ میری خواہش تھی کہ میں ڈاکٹر بنوں، لیکن میرے چھوٹے بہن بھائیوں کی تعلیم کی ذمہ داری بھی بڑا ہونے کے ناطے مجھ پر تھی کیونکہ میرے والد نوکری کی غرض سے بیرون ملک رہتے تھے۔' 

'المیہ یہ ہے کہ میڈیکل کی ڈگری حاصل کرنے کے لیے تعلیم کا کل خرچہ 50 سے 60 لاکھ روپے ہے لیکن میں اپنی تعلیم کے لیے اپنے بہن بھایئوں کی پڑھائی کو ترک نہیں کرنا چاہتا تھا۔'

انہوں نے مزید بتایا: 'علاقہ بدر ہونے سے پہلے بھی ہمارے مالی حالات کچھ زیادہ اچھے نہیں تھے۔ شہر سے دور ہونے کے باعث ہمارے گاؤں میں نہ تو نیٹ ورک تھا اور نہ ہی انٹرنیٹ کی سہولت۔ لیکن ان سب حالات کے باوجود کم از کم علم حاصل کرنے کی خواہش ضرور تھی۔'

'بہن بھائیوں کی تعلیم جاری رکھتے ہوئے میں اپنے علاقے کی فلاح بہبود کا کام بھی کرنا چاہتا تھا، اس لیے فیصلہ کیا کہ میں ایک صحافی بن کر اپنے علاقے کی پسماندگی اور مسائل کو اجاگر کر سکوں۔'

عابد اللہ نے صحافت پڑھنے کی ایک اور وجہ بھی بتائی جو کہانی کے اندر ایک کہانی ہے۔ عابد کہتے ہیں کہ جس دور میں آپریشن جاری تھا ان دنوں جو اخبار یا رسالہ ان کے گاؤں میں آیا کرتا تھا اس میں جنوبی وزیرستان اور یہاں سے دور جانے والوں کے بارے میں خبریں نہ ہونے کے برابر ہوتی تھیں، جس پر انہیں انتہائی تشویش اور افسوس ہوتا تھا۔

عابد کے مطابق: 'اس وقت پاکستان میں سب سے زیادہ کسمپرسی کی حالت میں ہم جیسے در بدر لوگ تھے اور کسی اور کی جنگ میں پیسے جا رہے تھے لیکن کوئی ان کی بات نہیں کرتا تھا۔ ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے ہمیں نظر انداز کیا جا رہا تھا۔' 

انہوں نے بتایا: 'ٹانک سے پری میڈیکل انٹر میڈیٹ کی تعلیم مکمل کر کے میں لاہور آ گیا اور وہاں کی ایک یونیورسٹی میں صحافت کے پروگرام میں داخلہ لیا اور ساتھ ہی ساتھ نوکری بھی شروع کی تاکہ اپنا اور اپنے گھر والوں کا خرچہ بھی اٹھا سکوں۔'

ہم نے عابد سے آپریشن ختم ہونے کے بعد اپنے آبائی گاؤں واپس جانے سے متعلق سوال کیا تو ان کا کہنا تھا کہ 'اسے ستم ظریفی کہیں یا حالات کے تیور کہ ہمارا گھر آپریشن راہ نجات کی نظر ہو گیا تھا۔ آج اگر وہاں جائیں تو ہمارا گھر محض ملبے کے ڈھیر کا منظر پیش کرتا ہے، جس کی دوبارہ تعمیر کے لیے وسائل نہیں ہیں۔ ہمارا گھر ایک پہاڑی پر واقع تھا اور وہاں تک مٹی، بجری اور اینٹیں لے جانا بہت ہی مشکل اور مہنگا مرحلہ ہے۔' 

انہوں نے مزید بتایا کہ حکومت نے آپریشن کامیاب ہونے کے بعد مقامی لوگوں کو ان کے مکانات کی تباہی کے بدلے ایک لاکھ 60 ہزار سے لے کر چار لاکھ روپے تک فی خاندان کو دینے کا وعدہ کیا تھا۔ شمالی وزیرستان کےعلاقہ مکینوں کو یہ رقم مل بھی گئی لیکن جنوبی وزیرستان کے 60 خاندانوں پر مشتمل گاؤں گرگرے اور دیگر منسلک گاؤں اب بھی اس امداد سے محروم ہیں۔ 

'ہم کئی بار اپنے علاقے کے بزرگوں کے ساتھ حکومتی عہدیداروں کے پاس جا چکے ہیں لیکن ابھی تک ہماری شنوائی نہیں ہوئی۔ سونے پر سہاگہ یہ ہے کہ اب اگر یہ رقم ہمیں مل بھی جائے تو اس مہنگائی کے دور میں اس رقم سے اپنے گھر کی تعمیر ممکن نہیں رہی، کیوںکہ گھر بنانے میں جو سریا، سیمنٹ اور اینٹیں درکار ہیں ان کی قیمت اتنی زیادہ ہے کہ سارے پیسے تو سامان خریدنے میں لگ جائیں گے، تو مزدوری، لینٹر اور دیگر لوازمات کیسے پورے ہوں گے۔ وسائل نہ ہونے کے باعث میرے جیسے کئی خاندان اپنا گھر دوبارہ تعمیر کرنے سے قاصر ہیں۔ خدارا امدادی رقم کو بڑھایا جائے تا کہ اس مشکل وقت میں ہمیں کچھ ریلیف مل سکے۔' 

جنوبی وزیرستان میں سکیورٹی صورت حال کیا ہے؟

امن و امان سے متعلق سوال کے جواب میں عابد نے بتایا کہ رہائش کے لحاظ سے ابھی تک وہ علاقہ محفوظ نہیں سمجھا جا سکتا، کیوں کہ وہاں ابھی تک ہر چند دن بعد ارد گرد سے فائرنگ کی آوازیں سنائی دیتی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ یہ دہشت گردوں کی طرف سے کی جاتی ہے۔ اس کے جواب میں پاکستانی فوج کی چوکیوں سے بھی جوابی فائرنگ کی جاتی ہے۔ اس وجہ سے پورے علاقے میں خوف و ہراس پایا جاتا ہے، اور کوئی بھی اپنے آپ کو محفوظ محسوس نہیں کرتا۔ 

عابد اللہ محسود کی خواہش ہے کہ وہ خانہ بدوشوں کی سی زندگی کو چھوڑ کر اپنے گھر والوں کے ساتھ اپنے گاؤں واپس جا سکیں جہاں انہوں نے اپنا بچپن گزارا ہے۔

 'میرے جیسے سینکڑوں خاندان اپنے علاقوں سے دور رہ کر تکلیف میں ہیں۔ کوئی کہے یا نہ کہے لیکن سب ہمیں مہاجرین ہی کی حیثیت سے دیکھتے ہیں۔'

ان کا مزید کہنا تھا: 'فاٹا اور اس کے پسماندہ گاؤں میں واقع سکول اور کالجوں کو دوبارہ بحال کیا جائے تا کے ہمارے بچے وہا ں جا کر پر امن ماحول میں پڑھ سکیں اور ہم وہاں نوکری کر کے اپنے گھر میں خوشحال طرز زندگی اپنا سکیں۔'

عابد کا مزید کہنا تھا کہ اگر حکومت یہاں ہی تمام اداروں کو بحال کرتی ہے تو یہاں سے گئے ہوئے نوجوان واپس آکر تعلیم اور نوکری حاصل کر سکتے ہیں۔ 

پورے جنوبی وزیرستان میں تین ڈگری کالج ہیں جو وانا، کانی گورم اور مکین لدا میں واقع ہیں، لیکن ان کالجوں میں طالب علموں کی حاضری حالات کے پیش نظر نہ ہونے کے برابر ہے۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

عابد کا حکومت وقت سے مطالبہ ہے کہ حکومت اور افواج قبائلی علاقوں میں مکمل امن قائم کرنے کو یقینی بنائیں تاکہ یہاں رہنے والے بلاخوف و خطر اپنے گھر والوں کے ساتھ واپس لوٹ سکیں۔ 

وزیرستان کے گاؤں جناتا کے رہائشی فضل ہادی بھی اپنے خاندان کے نو افراد کے ساتھ آپریشن کے باعث یہاں سے ہجرت کر گئے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ جنوبی وزیرستان میں 2005 میں ہونے والے چھوٹے درجے کے ملٹری آپریشن کے باعث ٹانک منتقل ہو گئے تھے، کیوںکہ ان کا گاؤں جناتا سب سے پہلے طالبان کے قبضے میں آچکا تھا اور انہوں نے یہان اپنے اسلحہ ڈپو بنا رکھے تھے۔ 

فضل ہادی نے مزید بتایا کہ وہ ایک دہائی سے زیادہ طویل عرصے سے ٹانک میں رہائش پذیر ہیں۔ حکومت نے آپریشن کے بعد نہ تو ان کی کوئی مدد کی اور نہ ہی کسی حکومتی ادارے نے تباہ حال گاؤں کی بہتری کے لیے کوئی کام کیا ہے۔ ان کے سمیت دیگر گاؤں والوں نے130 دن کا دھرنا بھی دیا لیکن کوئی فائدہ نہ ہوا۔ 

ان کا مزید کہنا تھا کہ ان کے گاؤں میں سفری سہولیات، صاف پانی، صحت تعلیمی درسگاہوں کا شدید فقدان ہے۔ 

فضل ہادی کا کہنا تھا کہ 'گھر بنانے کے لیے تقریباً دس لاکھ روپے تک کا خرچہ آتا ہے لیکن حکومت نے ایک دھیلے کی بھی امداد نہیں کی۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ سروے کروائے اور پھر غریب خاندانوں کو پیسے دیے جائیں جس سے وہ اپنے گھر بار تعمیر کرواسکیں۔' 

اس کے بر عکس عابد اللہ محسود نے حکومت کی توجہ شمالی اور جنوبی وزیرستان کی خوبصورت وادیوں کی طرف بھی مبذول کروائی۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان دنیا بھر کے قدرتی حسن سے مالا مال ہے۔ دیگر شمالی علاقہ جات کی طرح وزیرستان کا امن و امان اور تعمیر و ترقی کو دوبارہ مکمل طور پر بحال کرکے ہم اس خطے کو سیاحوں کی آمدو رفت کے لیے کھول سکتے ہیں، جس سے ملکی معیشت کو نہ صرف فائدہ پہنچے گا بلکہ دنیا بھر میں پاکستان کا نام ایک اور سیاحتی مقام کی وجہ سے اجاگر ہو گا۔

ساتھ ہی انہوں نے اس عزم کا بھی اعادہ کیا کہ وہ اپنی صحافت کے ذریعے اس علاقے کی خوبصورتی کو پوری دنیا کے سامنے لانا چاہتے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ