پاکستان کا یوٹیوب سے 'قابل اعتراض' مواد ہٹانے کا مطالبہ

پی ٹی اے کی جانب سے جاری کیے گئے بیان کے مطابق یوٹیوب سے کہا گیا ہے کہ وہ پاکستان میں فحاشی، غیر اخلاقی، عریاں اور نفرت انگیز تقاریر پر مبنی مواد کو فوری طور پر بلاک کردیں۔

کراچی کے ایک کیفے میں ایک نوجوان یوٹیوب پر میوزک ویڈیو دیکھ رہا ہے (فائل تصویر: اے ایف پی)

پاکستانی ریگولیٹرز نے ویڈیو شیئرنگ پلیٹ فارم یوٹیوب سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ان تمام ویڈیوز تک ملک میں رسائی کو فوری طور پر بلاک کردے، جنہیں وہ 'قابل اعتراض' سمجھتے ہیں۔

اس مطالبے پر سماجی اور انسانی حقوق کے حوالے سے کام کرنے والی تنظیموں کی جانب سے تنقید کی گئی ہے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق جمعرات کو پاکستان ٹیلی کمیونیکشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا کہ 'اتھارٹی نے یوٹیوب سے کہا ہے کہ وہ پاکستان میں فحاشی، غیر اخلاقی، عریاں اور نفرت انگیز تقاریر پر مبنی مواد کو فوری طور پر بلاک کردیں۔'

پی ٹی اے نے کہا کہ اس طرح کے مواد کو دیکھنے سے 'انتہائی منفی اثرات' مرتب ہوتے ہیں۔

اے ایف پی کے مطابق یوٹیوب کی جانب سے تبصرہ کرنے کی درخواست پر فوری طور پر جواب نہیں دیا گیا جبکہ پی ٹی اے کے ترجمان نے یوٹیوب کی جانب سے انکار کی صورت میں اتھارٹی کے اگلے مرحلے کے بارے میں بات کرنے سے انکار کردیا۔

رواں برس جولائی میں پی ٹی اے نے چینی ملکیت میں چلنے والی سوشل میڈیا ایپ ٹک ٹاک کو حتمی انتباہ جاری کرتے ہوئے اسے فحش مواد کو فلٹر کرنے کا حکم دیا تھا۔

دوسری جانب پی ٹی اے کی جانب سے ویڈیو سٹریمنگ ایپ بیگو لائیو کو بھی بند کردیا گیا ہے۔

یہ پہلا موقع نہیں ہے جب پاکستانی حکام کی جانب سے یوٹیوب سے اس طرح کا مطالبہ کیا گیا ہو۔

یوٹیوب کو 2012 میں اس وقت بھی ملک میں بند کردیا گیا تھا جب ایک امریکی فلم میں پیغمبر اسلام کو منفی انداز میں پیش کیا گیا تھا، جس کے نتیجے میں پوری دنیا میں پرتشدد مظاہرے ہوئے تھے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

توہین آمیز سمجھے جانے والے مواد کی فلٹرنگ کو یقینی بناتے ہوئے یوٹیوب نے پاکستان کے لیے ایک ورژن شروع کیا تھا اور 2016 میں اس کو ملک بھر میں بحال کر دیا گیا تھا۔

آزادی اظہارِ رائے کی مہم چلانے والوں نے پی ٹی اے کے نئے مطالبے پر تنقید کی ہے۔

ڈیجیٹل رائٹس کی حامی نگہت داد نے اے ایف پی کو بتایا کہ پی ٹی اے یہ بتانے کی زحمت بھی نہیں کرتا کہ اس کے نزدیک 'فحش' یا 'غیر اخلاقی' مواد کی کیا تعریف ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اگرچہ کچھ ممالک سوشل میڈیا پلیٹ فارمز سے مقامی قانون کے مطابق مخصوص مواد حذف کرنے کا مطالبہ کرسکتے ہیں مگر یہ مطالبے یوٹیوب کے بین الاقوامی اصولوں اور ضابطوں کے خلاف ہوں تو وہ ہمیشہ اس کی تعمیل نہیں کرتا ہے۔

نگہت داد نے مزید کہا: 'یوٹیوب جیسی سوشل میڈیا کمپنیاں انسانی حقوق کا خیال رکھنے کے لیے پرعزم ہیں اور وہ لوگوں کے رازداری کے حق، اظہار رائے کی آزادی اور معلومات تک رسائی کے حق سے متعلق اصولوں پر کاربند ہیں۔'

حکومتی کنٹرول کو مزید سخت کرنے کی حالیہ کوشش میں پاکستان کے سب سے زیادہ آبادی والے صوبے پنجاب میں قانون سازوں نے گذشتہ ماہ ایک بل منظور کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ 'قابل اعتراض' مواد کی طباعت یا اس کو درآمد کرنے والے پبلشرز کو قید کی سزا دی جائے گی۔

تاہم گورنر پنجاب نے ابھی تک اس قانونی دستاویز پر دستخط نہیں کیے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان