25 سالوں سے شانگلہ کےغیر فعال سکول اور ڈسپنسری کی کہانی

صوبہ خیبر پختونخوا کا ضلع شانگلہ ویسے تو سیاسی اور سیاحتی لحاظ سے مشہور ہے ہی مگر مقامی افراد سے بات کرنے پر یہاں مسائل کا ایک انبار نظر آتا ہے۔

یہ دونوں عمارتیں 1995 میں تعمیر کی گئی تھیں۔ (تصاویر: خالد خان)

صوبہ خیبر پختونخوا کا ضلع شانگلہ ویسے تو سیاسی اور سیاحتی لحاظ سے مشہور ہے ہی مگر مقامی افراد سے بات کرنے پر یہاں مسائل کا انبار نظر آتا ہے۔

پاکستان کے کم و بیش ہر گاؤں دیہات میں سب سے بڑا مسئلہ جو ہر انتخابات کے موقع پر سامنے آتا ہے وہ سکول اور طبی سہولیات کا نہ ہونا ہے اور انہی مسائل پر خوب سیاست بھی ہوتی ہے۔

شانگلہ جو کہ پاکستان تحریک انصاف کے رکن شوکت یوسفزئی کا حلقہ ہے، اس کا علاقہ الپوری بھی انہی مسائل میں گھرا ہوا ہے۔ 

ایسا نہیں کہ وہاں سکول یا طبی سہولیات کے لیے کوئی جگہ نہیں، جگہ تو ہے مگر وہاں جا کوئی نہیں سکتا۔

اطلاعات کے مطابق 1995 میں پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں یہاں ایک پرائمری سکول اور سول ڈسپنسری تو بنائی گئی مگر گذشتہ 25 سالوں سے یہ دونوں عمارتیں فعال نہ ہو سکیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ لوگوں کی اپنے علاقے میں سکول کی خواہش اور طبی سہولیات کو پورا کرنے کے لیے ایک مقامی شخص نے ہی زمین عطیہ کی تھی۔ 

اس زمین پر عمارتیں بھی تعمیر ہو گئیں مگر ایسا لگتا ہے کہ آج تک ان کو فعال کرنے کی کسی نے کوشش ہی نہیں کی۔

ان عمارتی ڈھانچوں کے لیے ڈاکٹروں اور اساتذہ کی بھرتیاں کی گئیں اور نہ ہی زمین عطیہ کرنے والوں کو اس قربانی کا کوئی فائدہ ہوا۔

مقامی افراد اور فلاحی تنظیمیں گذشتہ کئی سالوں سے محکمہ صحت اور تعلیم کے ساتھ رابطے میں ہیں کہ کسی طرح عوام کو یہ بنیادی سہولیات میسر آ جائیں۔

اس حوالے سے مقامی سطح پر کام کرنے والی ایک غیرسرکاری تنظیم، ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر شانگلہ اور ایس ڈی او ایجوکیشن الپوری سے رابطہ کیا تو الگ ہی کہانی سننے کو ملی۔

غیر سرکاری تنظیم کے اہلکار بخت افسر نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کی تنظیم اپنے طور پوری کوششیں کر چکی ہے مگر حکومت کچھ نہیں کر رہی ہے۔

جب ان سے دریافت کیا گیا کہ حکومت کیا نہیں کر رہی، عمارت موجود ہے، 25 سالوں میں اسے فعال ہی تو کرنا تھا؟

اس پر بخت افسر نے کہا کہ ’جی بات ایسی ہے کہ جس شخص نے زمین عطیہ کی تھی ان کی اپنے بھائی کے ساتھ نہیں بنتی، اور دونوں ہی بھائی اپنی زمین پر بننے والے سکول میں ملازمت کرنا چاہتے ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ دونوں بھائیوں کے درمیان جھگڑے کی وجہ سے حکومت اس معاملے میں کچھ نہیں کر پا رہی ہے۔

الپوری کی بچیوں کو سکول کے لیے ایک کلومیٹر دور ایک اور گاؤں جانا پڑتا ہے جہاں پہلے ہی سکول پانچ سو طالبات سے کھچا کھچ بھرا ہے۔

لہذا اس مشکل سے بچنے کے لیے اکثر والدین نے اپنی بچیوں کو سکول نہ ہی بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔

اس بارے میں جب ایس ڈی او ایجوکیشن الپوری محمد پرویز سے دریافت کیا تو انہوں نے کہا کہ پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ سکول محکمہ تعلیم کے نام پر نہیں ہے۔ دوسری بات ہے کہ زمین عطیہ کرنے والے دو بھائیوں کے درمیان بھی جھگڑا چل رہا ہے، ایک بھائی کہتا ہے کہ اس کی پوسٹنگ یہاں ہو جبکہ دوسرا بھائی کہتا ہے کہ انہیں تعینات کیا جائے۔

محمد پرویز کا کہنا تھا کہ ’ایک بین الاقوامی منصوبے کے تحت اس علاقے میں چار، پانچ سکول بنائے گئے تھے جن میں اس ایک سکول کو چھوڑ کر باقی سب فعال ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ پہلے قانون تھا کہ جو زمین عطیہ کرے تو اسے نوکری بھی دی جاتی تھی لیکن بعد میں ’سپریم کورٹ کا فیصلہ آیا کہ زمین کے بدلے نوکری نہ دی جائے، یہی وجہ ہے کہ ہمارا محکمہ ان بھائیوں کے ساتھ کوئی معاہدہ نہیں کر رہا۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ان بھائیوں کے درمیان جھگڑا چل ہی رہا تھا کہ 2015 میں اس عمارت کو کسی نے آگ لگا دی جہاں اب معلوم ہوا ہے کہ صرف دیواریں ہی رہ گئی ہیں۔

الپوری میں سکول کی کتنی ضرورت ہے اور جو ایک عمارت موجود ہے وہ اب تک کیوں فعال کیوں نہ ہو سکی اس کے بارے میں تو آپ پڑھ لیا اب ذرا دیکھتے ہیں کہ اس علاقے میں طبی سہولیات کی کیا صورتحال ہے اور اگر یہ سول ڈسپنسری فعال کر دی جاتی تو لوگوں کو کس حد تک مشکلات سے بچایا جا سکتا تھا۔

مقامی لوگوں کے مطابق علاقے میں ہسپتال نہ ہونے کی وجہ سے انہیں نو کلومیٹر دور ضلعی ہیڈکوارٹر ہسپتال الپوری جانا پڑتا ہے جس سے ان کا ایک دن تو آنے جانے میں ہی لگ جاتا ہے جبکہ خرچ میں بھی 1500 روپے کا اضافہ ہوتا ہے۔ سفر کے دوران مریضوں کی مشکلات الگ ہیں۔

تو آخر 25 سالوں میں ایک چھوٹی سی سول ڈسپنسری کیوں فعال نہیں کی جا سکی؟ اس سوال کا جواب ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر شانگلہ ڈاکٹر ابراہیم نے ایک جملے میں ہی بتا دیا۔

’جی اس کا تو مجھے صحیح معلوم نہیں، میں معلومات کر کے پھر آپ کو بتا دوں گا۔‘

علاقہ رہائشی کہتے ہیں کہ ان دونوں چھوٹی چھوٹی عمارتوں کی صورتحال سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ تعلیم اور صحت ہمارے لیے کتنے اہم ہیں اور عوام کو یہ بنیادی سہولیات فراہم کرنے میں حکمران کتنے سنجیدہ ہیں؟ ہر حکومت پچھلی حکومت پر الزام لگاتی ہے تو ذرا سوچیں گذشتہ 25 سالوں میں کتنی حکومتیں گزریں مگر بچیوں کے لیے سکول اور عوام کے لیے ڈسپنسری کے بارے میں کتنوں نے سوچا؟

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان