کیا مودی عہد اختتام پذیر ہے؟

مودی کے لیے اچھی خبر صرف کمزور اور منقسم اپوزیشن ہے جو کہ کم از کم اس وقت اتنی مضبوط نہیں دکھائی دیتی کہ وہ ان کی حکومت کے لیے کسی مشکل کا سبب بنے۔ لیکن یہ صورت حال اگر ان مسائل پر کامیابی سے قابو نہ پایا گیا تو اگلے عام انتخابات تک تبدیل بھی ہو سکتی ہے۔

نوجوان ووٹرز جو مودی کی پچھلی دو انتخابی کامیابیوں کے بڑی حد تک ذمہ دار تھے اب اس حکومت سے مایوس نظر آنے لگے ہیں(اے ایف پی)

وزیر اعظم نریندر مودی 2014 میں بہت امیدوں اور دھوم دھام کے ساتھ اقتدار میں آئے۔ بھارتیوں کی ایک بڑی تعداد نے انہیں اس لیے ووٹ دیا کہ وہ گجرات کی طرح باقی بھارت کو بھی معاشی ترقی کی راہ پر ڈال دیں گے۔

کئی بھارتیوں نے انہیں اس لیے بھی منتخب کیا کہ ان کے دور میں ہندو مذہب بھارت میں بالاتر حیثیت حاصل کرے گا جو ان کے خیال میں سکیولر بھارت میں اپنی جائز جگہ نہیں حاصل کر پایا تھا۔ کچھ کا یہ بھی خیال تھا کہ مودی کی جارحانہ شخصیت اور پالیسیوں کی وجہ سے بھارت خطے کی بڑی طاقت بن کر ابھرے گا اور سارے خطے خصوصا پاکستان کو اپنے سامنے سرنگوں کرے گا۔

یہ تحریر آپ مصنف کی آواز میں یہاں سن بھی سکتے ہیں

 

یہ جوش و خروش پہلے پانچ سال تو قائم رہا اور اس کے نتیجے میں مودی دوسرا انتخاب بھی جیتنے میں کامیاب ہو گئے۔ لیکن اس وقت سے لے کر اب تک بھارت نے تسلسل سے تنزلی کا ایک سفر شروع کیا۔ اس سے اب بھارت میں بےچینی کے آثار سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں۔

آپ معاشی میدان دیکھیں یا سفارتی محاذ، اندرونی سیاسی حالات یا کرونا (کورونا) بحران سے نمٹنے کی حکمت عملی، ان سب چلنجز کا مقابلہ کرنے میں مودی حکومت ناکام دکھائی دی۔ ان چار بڑے چلنجز میں یقینا اتنی استعداد ہے کہ اگر ان کا کامیابی سے مقابلہ نہ کیا گیا تو وہ مودی عہد کو ایک  خجالت ناک اختتام سے دو چار کر سکتے ہیں۔ مودی کے لیے اچھی خبر صرف کمزور اور منقسم اپوزیشن ہے جو کہ کم از کم اس وقت اتنی مضبوط نہیں دکھائی دیتی کہ وہ ان کی حکومت کے لیے کسی مشکل کا سبب بنے۔ لیکن یہ صورت حال اگر ان مسائل پر کامیابی سے قابو نہ پایا گیا تو اگلے عام انتخابات تک تبدیل بھی ہو سکتی ہے۔

معاشی مشکلات

بھارتی معیشت میں پچھلے چند سالوں سے ابتری کے آثار نظر آنا شروع ہو گئے تھے جو کرونا بحران کی وجہ سے اب کھل کر سامنے آگئے ہیں۔ بھارتی مجموعی قومی آمدن میں پچھلی مالی سہ ماہی میں تقریبا 24 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ ویسے بھی معیشت کرونا بحران سے پہلے صرف 4 فیصد بڑھ رہی تھی جو 2016 میں 8 فیصد تھی۔

نوجوان ووٹرز جو مودی کی پچھلی دو انتخابی کامیابیوں کے بڑی حد تک ذمہ دار تھے اب اس حکومت سے مایوس نظر آنے لگے ہیں۔ گرتی ہوئی معیشت کی وجہ سے بڑی تعداد میں نوجوان بےروزگار ہیں۔ خدشہ یہ ہے کہ موجودہ معاشی تنزلی کی وجہ سے 20 کروڑ لوگ دوبارہ غربت کی طرف واپس آ جائیں گے اور 12 کروڑ سے زیادہ بےروزگار ہو جائیں گے۔

ان تکلیف دہ معاشی حالات کی وجہ سے عوام میں مایوسی کی سی کیفیت نظر آنے لگی ہے۔ معاشی ماہرین سمجھتے ہیں کہ اگر معاشی تنزلی اسی رفتار سے جاری رہی تو جلد بھارت دنیا کی پانچویں بڑی معیشت نہیں رہے گا اور یہ خطرہ بھی بڑھنے لگا ہے کہ پچھلے 30 سالوں میں غربت کم کرنے میں جو کامیابی حاصل ہوئی وہ ختم بھی ہو سکتی ہے۔ بڑھتی ہوئی بےروزگاری بھارت کو ایک سنجیدہ سیاسی، سماجی اور معاشی بحران سے دوچار کر سکتی ہے جو کہ مودی حکومت کے خاتمے کا سبب بن سکتی ہے۔

سفارتی دشواریاں

اس وقت بھارت کے تقریبا تمام ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات مشکل میں ہیں۔ بھارت کے جارحانہ انداز کو دیکھتے ہوئے تمام ہمسایہ ممالک آہستہ آہستہ چین کی طرف دیکھنا شروع ہو گئے ہیں۔ چین نے ان حالات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ان تمام علاقائی ممالک میں بھاری سرمایہ کاری کرنی شروع کر دی ہے جس سے بھارتی علاقائی برتری کے عزائم کو سخت دھچکا لگا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

حالیہ چین۔بھارت تصادم نے بھارتی فوجی برتری اور تیاریوں کے دعوؤں کی بھی نفی کر دی ہے اور اس کے علاقائی قدکاٹھ کو بھی نقصان پہنچایا ہے۔ چینی اقدامات سے واضح ہو گیا ہے کہ چین بھارتی علاقائی برتری کو تسلیم نہیں کرے گا اور وہ تمام اقدام اٹھانے سے گریز نہیں کرے گا جن سے بھارتی علاقائی بالادستی کے خواب کو ختم کیا جا سکے۔

چین کے ردعمل نے مودی کے بھارت میں مشہور جارحانہ عکس کو بھی سخت نقصان پہنچایا ہے۔ عموما ہمدرد بھارتی میڈیا نے بھی چین کے معاملے پر مودی کے سست اور ناکافی ردعمل پر سخت تنقید کی ہے جو آئندہ قومی اور ریاستی انتخابات میں مودی کو شدید نقصان پہنچا سکتا ہے۔ چین کے ساتھ معاملات طے کرنے میں کمزوری دکھانا مودی کے لیے سیاسی طور پر کافی مہلک ثابت ہوگا مگر بھارت اس پوزیشن میں بھی نہیں کہ کسی طرح چین کو آنکھیں دکھا سکے۔

گرتی ہوئی معیشت، کرونا بحران اور ہمسایہ ممالک کے ساتھ مشکل تعلقات کی وجہ سے بھارت کے لیے چین کے ساتھ کشیدگی کم کرنے کا راستہ ہی بچا ہے۔ کشیدگی بڑھانے سے نقصان صرف بھارت کو ہی ہوگا۔

چین نے فیصلہ کن اقدام سے بھارت پر اپنے عزائم واضح کر دیے ہیں۔ سلامتی کے معاملات میں اپنے سخت رویے کا اظہار کرتے ہوئے چین نے بین الاقوامی مذمت کی پرواہ کیے بغیر ہانگ کانگ میں امن و امان قائم رکھنے کے لیے سخت اقدامات لینا شروع کر دیے ہیں۔ اسی طرح بحیرہ جنوبی چین میں بھی چینی فوجی اقدامات میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور ساتھ ساتھ چین نے تائیوان کو بھی آزادی کے بارے میں فیصلہ کرنے سے خبردار کر دیا ہے۔ یہ سارے اقدامات ایک نئے، پراعتماد اور طاقتور چین کی طرف اشارہ کرتے ہیں جو اپنے علاقائی اور بین الاقوامی مفادات کی حفاظت کے لیے ہر قدم اٹھانے کو تیار ہے اور اس صورت حال میں بھارتی حکومت کے پاس بہت کم راستے بچے ہیں۔

کشمیر بحران

جموں و کشمیر کے بارے میں پچھلے سال کے فیصلے نے متوقع نتائج نہیں دیے ہیں اور اس نے حکومت کے لیے مزید امن و امان کے مسائل کھڑے کر دیئے ہیں۔ آٹھ لاکھ بھارتی فوجیوں کی موجودگی کے باوجود کشمیریوں کی جدوجہد میں کمی دیکھنے میں نہیں آئی ہے۔ بین الاقوامی ردعمل خصوصا ذرائع ابلاغ کشمیریوں کی سیاسی جدوجہد کو دنیا کے سامنے زیادہ پر اثر طریقے سے سامنے لے آیا ہے۔

بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیم جینوسائیڈ واچ (Genocide Watch) نے تو کشمیر کے بارے میں نسل کشی انتباہ (Alert) جاری کر دیا ہے. ایک سال گزرنے کے باوجود مودی حکومت جموں و کشمیر کے لیے کوئی سیاسی حل سامنے نہیں لا سکی ہے۔ بظاہر سارے کشمیری دھڑے اس وقت مودی حکومت کے قدم کے خلاف متحد نظر آتے ہیں۔ اگر یہ سیاسی تعطل طول پکڑتا ہے اور تشدد میں اضافہ ہوتا ہے تو یہ مودی کے لیے آئندہ انتخابات میں ایک اور درد سر ثابت ہو سکتا ہے۔

اگر مودی کشمیر کے الحاق کا فیصلہ واپس لیتے ہیں تو یہ ان کی سیاسی موت ہوگی اور اگر فوجی ایکشن جاری رکھتے ہیں تو اس کی بڑھتی ہوئی قیمت اور کسی بھی ناکامی کی صورت میں مزید سیاسی مسائل میں گھر سکتا ہے۔ یہ نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن والی صورت حال ہے۔

کرونا بحران

کرونا وائرس سے نمٹنے کی حکمت عملی بھی مودی کے لیے ایک  درد سر ثابت ہو رہی ہے۔ یہ ناصرف ایک شدید معاشی بحران کا سبب بنی ہے بلکہ بھارت ایک بہت بڑے انسانی بحران کا بھی شکار ہوا ہے۔ بغیر تیاریوں کے مکمل لاک ڈاؤن اور آبادی کی ایک بڑی تعداد کو منتقل کرنے کی پالیسی کے نقصانات اب واضح طور پر سامنے آگئے ہیں۔ اس پالیسی میں نہ تو عوام کی ایک بڑی تعداد کے لیے طبی سہولتوں کا خیال رکھا گیا اور نہ ہی انہیں مناسب معاشی مدد فراہم کی گئیں۔

کرونا کے مریضوں کی تعداد علاقے کے دوسرے ممالک کے مقابلے میں کم ہونے کی بجائے خطرناک حد تک بڑھنے لگی ہے۔ اس وقت بھارت میں 40 لاکھ سے زیادہ کرونا کے مریض ہے جو کہ امریکہ اور برازیل کے بعد دنیا میں تیسرے نمبر پر ہیں اور مرنے والوں کی تعداد 50 ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔ اس وقت بھی بھارت میں 80 ہزار کے قریب لوگ روزانہ کرونا کے مرض میں مبتلا ہو رہے ہیں۔

کرونا کے مریضوں کی تعداد بڑھنے سے بھارت میں یہ تاثر جڑ پکڑتا جا رہا ہے کہ اس کی وجہ حکومت کی بری طرح عمل درآمد کرنے والی لاک ڈاؤن کی پالیسی تھی جس کی وجہ سے نہ تو معیشت کو بچایا اور نہ ہی کرونا کو کنٹرول کیا جا سکا۔

ان تمام گھمبیر مسائل کی وجہ سے مودی حکومت شدید سیاسی مشکلات کا شکار ہے۔ کسی معتبر، قابل بھروسہ اور مقبول مقابل سیاسی رہنما نہ ہونے کی وجہ سے مودی آج بھی بھارت کے سب سے مقبول سیاسی رہنما تو ہیں لیکن ان بحرانوں پر اگر جلد قابو نہ پایا گیا تو بدلتے مزاج والے ووٹروں کی وجہ سے یہ مقبولیت ختم ہونے میں دیر نہیں لگے گی۔

بھارت کو درپیش ان مسائل میں اتنی طاقت ہے کہ وہ مودی عہد کا خاتمہ کر سکتے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ