خیبر پختونخوا حکومت کی جانب سے قبائلی اضلاع میں خاصہ دار اور لیویز فورس کو پولیس میں ضم میں کرنے پر قبائلی عوام جہاں خوش ہیں وہیں انہیں اپنے کیس حل ہونے میں ممکنہ تاخیر کا ڈر بھی ہے۔
قبائلی علاقوں کو خیبرپختوخوا میں ضم کرنے کے بعد سے خاصہ دار اور لیویز فورس کا پولیس میں ضم ہونے کا معاملہ متنازعہ تھا کیونکہ صوبائی بیورو کریسی خاصہ دار اور لیویز کے لیے ایک نیا نظام لانے پر بضد تھی جبکہ حکومت انہیں پولیس فورس میں ضم کرنا چاہتی تھی۔
تاہم یہ معاملہ پیر کو اُس وقت حل ہو گیا جب وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان نے خاصہ دار اور لیویز فورس کو پولیس میں ضم کرنے کا اعلان کر دیا۔
ایک پریس کانفرنس سے خطاب میں محمود خان نے کہا: وزیر اعظم عمران خان نے وعدہ کیا تھا کہ کسی کو بھی بے روزگار نہیں کیا جائے گا اور اسی پر عمل کرتے ہوئے خاصہ دار اور لیویز کو پولیس میں ضم کیا گیا ہے۔
انہوں نے بتایا اس اعلان کے بعد اب تمام خاصہ دار اور لیویز پولیس فورس ہوں گے جن کی تعداد تقریباً 28 ہزار کے قریب ہے۔ ’ضم ہونے والی خاصہ دار اور لیویز فورس کو بھی خیبر پختونخوا پولیس کی مراعات حاصل ہوں گی۔‘
قبائلی اضلاع کے خیبر پختونخوا میں ضم ہونے کے بعد خاصہ دار اور لیویز فورس کے مستقبل پر سوال کھڑا ہو گیا تھا اور 2016 سے اس حوالے سے دو ماڈلز پر بحث جاری تھی۔
سارے معاملے پر نظر رکھنے والے پشاور کے صحافی افتخار فردوس نے انڈیپنڈنٹ اردو کو بتایا: ایک تجویز یہ تھی کہ خیبر پختونخوا پولیس ایکٹ 2017 کو قبائلی اضلاع میں نافذ کیا جائے اور خاصہ دار اور لیویز کو پولیس میں ضم کیا جائے۔
افتخار فردوس نے بتایا کہ اس تجویز میں 12 ہزار سے زائد لیویز فورس کے اہلکاروں کو پولیس میں ضم ہونے کا منصوبہ تھا اور انہیں مخلتف رینک میں تقسیم کرنا تھا، لیکن اس ماڈل میں خاصہ دار فورس کے مستقبل کے بارے میں کچھ نہیں بتایا گیا تھا۔
انھوں نے مزید بتایا کہ خاصہ دار میں زیادہ تر لوگ ناخواندہ، زائد العمر اور غیر تربیت تھے اور یہی وجہ تھی کہ اس فورس کو پولیس میں ضم کرنے کی تجویز زیادہ جاندار نہیں تھی۔
تاہم ان کا کہنا تھا کہ بعد میں دونوں فورسز کو پولیس میں ضم کرنے کا فیصلہ کیا گیا جس کا اعلان آج ہوا ہے۔ ’چھ مہینوں میں یہ پورا عمل مکمل کیا جائے گا جس میں ضم شدہ فورسز کی ٹریننگ کی جائے گی۔‘
قبائلی کیا کہتے ہیں؟
خاصہ دار فورس اور لیویز کے پولیس میں ضم ہونے پر قبائلی عوام کا کہنا ہے کہ قبائلی نوجوانوں نے ہمیشہ تبدیلی کا مطالبہ کرتے ہوئے اپنے علاقوں میں ملک کے دیگر حصوں جیسا قانون مانگا ہے۔
ضلع خیبر سے تعلق رکھنے والے زرغون شاہ آفریدی کا کہنا ہے کہ شروع میں مسائل ہوں گے اور عوام کو پولیس نظام سمجھنے میں وقت لگے گا لیکن عمومی طور پر یہ ایک اچھا قدم ہے۔
انہوں نے بتایا کہ پہلے قبائل کے سارے تنازعات کے فیصلے صرف جرگے کے ہاتھوں میں تھے اور کسی کو ان فیصلوں کو چیلنج کرنے کا حق نہیں تھا۔
’جرگے کا اپنا ایک مقام ہے اور اس کو بھی زندہ رہنا چاہیے لیکن کچھ فیصلے ایسے ہوتے ہیں جس کے لیے پولیس اور عدالتی نظام کا ہونا ضروری ہے کیونکہ ہر کام جب ایک قانون کے دائرے میں کیا جائے تو اس میں عوام کا فائدہ ہوتا ہے۔‘
تاہم زرغون شاہ کا کہنا ہے کہ ایک طرف اگر پولیس کا نظام بہتر ہے تو دوسری جانب اس میں خامیاں بھی ہیں۔ ان کے مطابق جرگہ نظام سستے انصاف کی فراہمی کا ایک فورم ہے جبکہ پولیس اور عدالتی نظام میں تفتیش اور فیصلہ آنے میں بہت وقت لگتا ہے۔
ایک اور قبائلی شہری عبدالقیوم آفریدی کا کہنا ہے کہ پولیس نطام سے ملک نظام کا خاتمہ ہو جائے گا جو پہلے حکومت سے مراعات لے کر لوگوں پر حکمرانی کرتے تھے۔
انہوں نے بتایا کہ خاصہ دار فورس کی اگر تربیت کی جائے تو وہ ایک بہتر پولیس فورس ثابت ہوسکتی ہے کیونکہ ان کی دہشت گردی کے خلاف قربانیاں کسی سے ڈھکی چپھی نہیں۔