لاہور میں نئے تعینات ہونے والے سی سی پی او لاہور عمر شیخ جو گذشتہ چند روز سے اپنی تعیناتی اور سابقہ آئی جی پنجاب کے خلاف بیان بازی کی وجہ سے خبروں میں تھے ایک بار پھر سول سوسائٹی، انسانی و خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں اور عوام کی کڑی تنقید کا نشانہ بن گئے ہیں۔
ان پر حالیہ تنقید کی وجہ ان کا وہ بیان ہے جو انہوں نے موٹروے پر ایک خاتون کے ساتھ اجتماعی زیادتی کے واقعے پر ایک نجی ٹی وی چینل پر دیا۔
سی سی پی او لاہور عمر شیخ نے اپنے بیان میں کہا کہ ’انہیں یہ سمجھ نہیں آرہی کہ خاتون بچوں کو لے کر آدھی رات کو اکیلے سفر پر کیوں نکلیں، اگر نکلیں تو انہوں نے گاڑی میں پٹرول کیوں نہیں ڈلوایا اور موٹروے کی بجائے انہوں نے جی ٹی روڈ کا راستہ اختیار کیوں نہیں کیا۔‘
اس بیان کے فوری بعد سوشل میڈیا پر انہیں کڑی تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیمیں، عورت مارچ کی رضا کار، سول سوسائٹی ان کے اس بیان سے خاصی نالاں ہے۔
ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن نے بھی جمعے کو رات آٹھ بجے لبرٹی چوک پر دھرنے کا اعلان کیا ہے جبکہ عوت مارچ کی رضا کار دیگر خواتین کے حقوق کی علمبردار تنظیموں کے ساتھ مل کر اتوار کو ایک احتجاج کی حکمت عملی بنا رہی ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو نے کچھ ویمن راٹس ایکٹیویسٹس سے بات کی کہ وہ سی سی پی او لاہور کے اس بیان کو کس طرح دیکھتی ہیں۔
ڈاکٹر ویرتا علی اجن نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ ایک کیس کی بات نہیں ہے جس کے ساتھ سانحہ بیتا ہے اسی پر الزام لگانا خاص طور پر حکومتی اداروں سے تعلق رکھنے والوں کی طرف سے ناقابل قبول ہے انہیں اس حادثے کے لیے غلط دلائل نہیں دینے چاہیے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’دراصل پدر شاہی صنفی امتیاز کو بڑہاوا دیتی ہے یہ تو اس کی بنیاد ہوتی ہے کہ ایک صنف دوسری صنف سے اعلیٰ ہے اور اگر آپ صنفی امتیاز کو فروغ دے رہے ہیں تو آپ صنف پر مبنی تشدد کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں اور صنف پر مبنی تشدد کا منطقی انجام ریپ ہوتا ہے۔‘
’یہ ایک کیس ہائی وے پر ہوگیا تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہر کیس ہائی وے پر ہوتا ہے، اگر آپ چاہتے ہیں کہ ریپ نہ ہو تو اس کا مطلب ہے کہ ریپ کہیں بھی نہیں ہونا چاہیے اور کسی بھی صورتحال میں نہیں ہونا چاہیے اور اس کے لیے آپ کو فوری انصاف مہیا کرنا ہوگا۔‘
اعلین عالم نے اس حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ موٹر وے ریپ کیس میں خاتون کے حوالے سے دیے جانے والے سی سی پی او لاہور عمر شیخ کے بیان نے خواتین کے عدم تحفظ کے احساس میں اضافہ کیا ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ ایک عورت ہونے کے ناطے مجھے لگتا ہے میں عورت مارچ اور اس کے نعرے کی مزید حمایت کروں گی۔
’سی سی پی او کے بیان کو مسترد کرتے ہوئے ان حکام کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے جن کی غفلت کی وجہ سے یہ سانحہ پیش آیا بلکہ موٹر وے پولیس کا بھی احتساب کیا جائے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انسانی و خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی سدرہ ہمایوں کہتی ہیں کہ ’مجھے سی سی پی او لاہور کے اس بیان سے ٓشدید مایوسی ہوئی ہے۔ انہیں اپنا کام ہی کرنا نہیں آتا، ایسے بیان کی توقع ایک عام آدمی سے کی جاسکتی ہے۔‘
’انہیں ایسے کیسسز سے دور رکھنا چاہیے صنف پر مبنی جرائم وہی حل کریں جو ان کیسسز کی سمجھ بوجھ رکھتے ہیں۔‘
اس کے علاوہ سوشل میڈٰیا پر بھی سی سی پی او کے بیان کے خلاف ردعمل کے ساتھ ساتھ عورت مارچ کا نعرہ ’میرا جسم میری مرضی‘ بھی دوبارہ ٹرینڈ بن گیا۔
اس ہیش ٹیگ کے ساتھ کی جانے والی ٹویٹس میں اس نعرے کی وضاحت ایک بار پھر سے کی گئی کہ کوئی کسی عورت کے جسم کو اس کی مرضی کے بغیر ہاتھ نہیں لگا سکتا۔
Women’s bodies are not property of men, family, nation and society. Our bodies only belong to us and public spaces should belong to us! #MeraJismMeriMarzi precisely talks about THIS exploitation of our bodies where any man feels entitled to inflict violence against our bodies
— Aurat Azadi March Islamabad (@AuratAzadiMarch) September 10, 2020
پی ٹی آئی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے ٹویٹ میں لکھا: ’ایک افسر کے لیے ایک خاتون کو اپنے ریپ کا ذمہ دار ٹھہرانا اور کہنا کہ وہ جی ٹی روڈ سے جاتیں، یا یہ سوال پوچھنا کہ وہ رات کے وقت اپنے بچوں کے ساتھ اکیلی کیوں نکلیں ناقابل قبول ہے۔ ہم اس معاملے کو اٹھا رہے ہیں ریپ جیسے جرم کو معقول قرار نہیں دیا جاسکتا۔‘
For an officer to effectively blame a woman for being gang raped by saying she should have taken the GT Road or question as to why she went out in the night with her children is unacceptable & have taken up this issue. Nothing can ever rationalise the crime of rape. That's it.
— Shireen Mazari (@ShireenMazari1) September 10, 2020
دوسری جانب سینیٹ انسانی حقوق کمیٹی نے موٹروے پر خاتون کے ساتھ زیادتی کی واردات کا نوٹس لیتے ہوئے سیکریٹری مواصلات، آئی جی پنجاب، آئی جی موٹر وے اور دیگر حکام 16 ستمبر کو طلب کر لیا جبکہ سی سی پی اور لاہور کو بھی ان کے نازیبا اور بے حسی پر مبنی بیان دینے پر طلب کر لیا گیا ہے۔
سی سی پی او لاہور کیا کہتے ہیں؟
سی سی پی او لاہور عمر شیخ نے اپنے اس بیان کے کچھ دیر بعد لاہور میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کے بیان کو غلط رنگ دیا جا رہا ہے۔
صحافیوں سے بات کرتے ہوئے عمر شیخ کا کہنا تھا کہ ’مجھے یہ یقین ہے کہ اللہ آپ سب میڈیا والوں سے پوچھے گا۔‘
انہوں نے اپنے بیان کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’میں نے یہ کہا تھا کہ کیا ہم اپنی بیٹی، ماں کو اکیلے بچوں کے ساتھ جانے دیتے ہیں رات ساڑھے بارہ بجے۔۔۔ نہیں جانے دیتے۔‘
’یہ باتیں کرنے سے میرا مقصد اس خاتون کو مورد الزام ٹھہرانا نہیں ہے۔ مجھے یہ بتانا ہے کہ ہمارا معاشرہ ایسا ہے، بہنوں والو بیٹیوں والو آئندہ خیال رکھو۔‘
بعد میں مشیر داخلہ شہزاد اکبر نے بھی کہا کہ سی سی پی او لاہور کے بیان کا غلط مطلب نکالا جا رہا ہے۔
جمعرات کی شام سی سی پی او لاہور کے ہمراہ صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے اشہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ ’یہ واقعہ انتظامیہ کی نااہلی ہے جس کا اعتراف کرنا چاہیے اور ’ایسے عناصر کو کیفر کردار تک پہنچانا ہماری ذمہ داری ہے۔‘