کرونا میں کیش کا استعمال محدود تر: کیا مستقبل میں نقد رقم نہیں ہو گی؟

سویڈن کے مرکزی بینک، رکس کے گورنر سٹیفن انگویس کے مطابق سویڈن میں کچھ نوجوان شہریوں کو اندازہ نہیں ہے کہ اب حقیقی کرنسی کیسی دکھائی دیتی ہے۔

(اے ایف پی)

کووڈ 19 کے بعد نقد رقم کے استعمال میں بہت زیادہ کمی کا رجحان دیکھنے میں آیا ہے، اور اگر ایسا ہی ہے تو اس کے اثرات کیا ہو سکتے ہیں؟

معاشی جھٹکوں کے ضمن میں عمومی قاعدہ یہ ہے کہ یہ ان رجحانات کو فروغ دیتے ہیں جو پہلے سے موجود ہوں اور یقینی طور پر اس جھٹکے نے نقد ادائیگیوں کی جگہ کارڈز کے استعمال اور موبائل فون کے ذریعے ادائیگی کے رجحان کو فروغ دیا ہے۔

ایسا پوری دنیا میں ہو رہا ہے۔ اگرچہ اس کی رفتار ہر ملک میں الگ ہے۔

برطانیہ میں لاک ڈاؤن کے دوران نقد رقم کے بغیر ہونے والے کاروبار کا تناسب آٹھ فیصد سے بڑھ کر 31 فیصد ہو چکا ہے۔

امریکہ میں اس تبدیلی کی رفتار نسبتاً کم ہے۔ کرونا (کورونا) وائرس کے اثرات سے پہلے نقد رقم ادائیگی کی سب سے زیادہ مقبول شکل تھی تاہم رواں سال اس میں تبدیلی کا اہم سنگ میل ثابت ہو سکتا ہے۔

یورپ کی تصویر اس سے کچھ مختلف ہے۔ ایک طرف جرمنی ہے جہاں نقد ادائیگی کو اب بھی ترجیح دی جا رہی ہے لیکن امریکی فرم میکنسی کے ایک جائزے میں بتایا گیا ہے کہ جرمنی میں بھی 2022 تک لین دین میں نقدی کا استعمال 50 فیصد سے کم ہو جائے گا۔

دوسری جانب سویڈن ہے۔ سویڈن پرکشش ہے کیونکہ یہ اکثر موقعوں پر عالمی سماجی لیڈر ثابت ہوتا ہے۔ یہ ہمیں جھلک دکھاتا ہے کہ کس طرح اب سے کچھ سال بعد باقی دنیا کا رویہ کیسا ہو گا۔ سویڈن میں نقدی فی الحقیقت غائب ہو چکی ہے۔

سویڈن کے مرکزی بینک، رکس کے گورنر سٹیفن انگویس کے مطابق سویڈن میں کچھ نوجوان شہریوں کو اندازہ نہیں ہے کہ اب حقیقی کرنسی کیسی دکھائی دیتی ہے۔

انہوں نے خبردار کیا کہ'اگر زیادہ دیر کے لیے بجلی چلی جائے تو ہمیں اس مسئلے سے نمٹنے اور مشکل حالات سے نکلنے کے لیے وافر تعداد میں نقد رقم رکھنے کی ضرورت ہو گی تاکہ ایسا کوئی بھی مسئلہ سنگین ہو جانے کی صورت میں ہم دوبارہ نقد رقم استعمال کر سکیں۔'

یہ واضح ہے کہ نقد رقم کا استعمال ترک کرنے کے بہت فوائد ہیں۔ صحت کے مسئلے سے قطع نظر رقم کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنا مہنگا پڑتا ہے۔ خالی پارکنگ میٹرزاور کیش مشینوں کو بھرنے اور سیکیورٹی کےناگزیر انتظامات کے لیے بڑی رقوم کی ضرورت ہوتی ہے۔ کرنسی نوٹ ڈھونڈنے، انہیں کسی کے حوالے کرنے اور ریزگاری لینے میں وقت صرف ہوتا ہے۔

خفیہ ادائیگی کے لیے بھی نقد رقم استعمال ناگزیر ہے۔ اس اقدام کا مقصد ٹیکس بچانا یا غیرقانونی لین دین ہو سکتا ہے۔ لیکن سٹیفن انگویس نے نوٹ کیا ہے کہ مواصلاتی رابطہ منقطع ہو جانے کے خطرے سے ہٹ کر بھی اس کے بڑے نقصانات ہیں۔ جیسے وہ لوگ جن کا کسی بھی وجہ سے بینک اکاؤنٹ نہیں ہے انہیں مختلف سروسز تک رسائی میں رکاوٹ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

ہر کسی کے پاس سمارٹ فون نہیں ہوتا۔ بہت سے معمرافراد سمارٹ فون استعمال نہیں کرتے کیونکہ وہ صرف بٹنوں کے ساتھ کام کرسکتے ہیں۔ فون کی بیٹریاں ناکارہ ہو جاتی ہیں اور جہاں تک غیرقانونی سرگرمیوں پر قابو پانے کا تعلق ہے، ظاہر کہ منشیات کے دھندے میں ملوث افراد نے اپنے آپ کو نقد رقم کے بغیر جینے والے معاشرے کے مطابق ڈھال لیا ہے اور واقعی ان کے لیے یہ امر محفوط ہے کہ وہ تہہ ہونے والے نوٹوں پر مشتمل بڑی رقوم نہ سنبھالیں۔

تو پھر کیا ہو گا؟

اگر آپ مختلف ادوار میں نقد رقم کے سفر پر نظر دوڑائیں تو طویل مدتیں دکھائی دیں گی جب کچھ زیادہ ہوتا نظر نہیں آتا۔ تب اچانک آگے کی جانب چھلانگ لگتی ہے۔

سکوں کی قیمت ان میں موجود دھات کی بدولت ہے۔ چینیوں کی جانب سے کاغذی نوٹوں کی ایجاد، سونے کا معیار، کریڈٹ کارڈز، بینک کارڈز، فون کے ذریعے ادائیگیاں اور وغیرہ وغیرہ۔

رقم کے روائتی انداز میں استعمال کے پیچھے تین چیزیں اہم ہیں۔ یونٹ آف اکاؤنٹ، تبادلے کا ذریعہ، اور، قدر کا تحفظ - جو تبدیل نہیں ہوتا۔ ہم جس بھی طریقے سے لین دین کرتے ہیں ہم انہی تین قدروں کے حصول کی راہ میں کھڑے ہوتے ہیں۔

مستقبل میں شاید یہ ہو کہ سویڈش ماڈل ایک معمول بن جائے لیکن ہم سب اس انتہائی صورت حال سے کچھ فاصلے پر رک جائیں گے جس میں سویڈن اس وقت ہے۔ زیادہ تر لین دین کے لیے لوگ کسی قسم کی الیکٹرانک ٹرانزکشن کا طریقہ استعمال کریں گے۔ لیکن ایسا ہونے میں دس برس سے زیادہ وقت لگے گا۔

نقد رقم کے استعمال کی بات کی جائے تو اس وقت جرمنی وہاں ہے جہاں سویڈن 2003 میں تھا۔ حتیٰ کہ 10 یا 20 سال کے بعد بھی سویڈن کچھ نقد رقم استعمال کر رہا ہو گا۔ یہی حال باقی دنیا کا ہو گا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

امریکی میں سماجی وجوہات کی بنا پر نقد رقم کو خاص طور پر اہمیت حاصل رہے گی۔ ان وجوہات میں ذاتی معاملات کو پوشیدہ رکھنے کی خواہش سب سے اوپر ہے اور نقد رقم پوشیدہ ہوتی ہے۔ لین دین کا سراغ نہیں ہوتا۔ زیادہ لوگ اپنی گمنامی کو ترجیح دیں گے اور امریکی معاشرہ اسے قبول کر لے گا بلکہ اسے سراہے گا۔

اب یہاں ایک دلچسپ تضاد موجود ہے۔ کووڈ 19 نے نقد رقم کی شکل میں ادائیگیوں کے تناسب کو کم کر دیا ہے لیکن کسی بھی بحران کی طرح اس صورتحال نے بھی نقد رقوم کو اپنے پاس رکھنے کی خواہش  لوگوں میں بڑھا دی ہے۔ اس سال امریکہ میں ڈالروں کی طلب میں تیزی سے اضافہ دیکھنے میں آیا جس کی وجہ 2000 کا'وائی ٹو کے بگ'ہے۔ (سال دو ہزار میں ڈیجیٹل تاریخوں کا مسئلہ پیدا ہو گیا تھا کیونکہ بہت سے کمپیوٹر پروگرام چار اعداد پر مشتمل سال کے ساتھ کام کرتے تھے۔ اس طرح 1900 اور 2000 میں امتیاز ناممکن ہو گیا تھا۔)

اس سال 11 مارچ سے شروع ہونے والے  ہفتے کے دوران زیرگردش ڈالروں کی تعداد 1809 ارب سے بڑھ کر 1843 ارب ہو چکی ہے۔ مارکیٹ میں نوٹوں کی تعداد میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ نو ستمبر کے فیڈرل ریزرو کے  مطابق ڈالروں کی تعداد 1980 ارب تک جا پہنچی ہے۔

میں پاؤنڈ سٹرلنگ کے مستقبل کے بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتا لیکن 'ڈالر-عظیم طاقت' میں اب بھی یقیناً خود کو منوانے کے لیے جان موجود ہے۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تحقیق