خواجہ سراؤں کی سیاسی جماعت کا اعلان

’آزاد پارٹی‘ نامی نئی سیاسی جماعت کے صدر ندیم کشش کے مطابق ان کی پارٹی میں گرو، چیلوں کا کوئی کلچر نہیں ہوگا۔  

اسلام آباد میں خواجہ سراؤں کے حقوق کے لیے سرگرم کارکن ندیم کشش نے سیاسی جماعت بنانے کا اعلان کیا ہے جسے ’آزاد پارٹی‘ کا نام دیا گیا ہے۔

اس جماعت میں خواجہ سراؤں کے علاوہ دیگر شہری بھی حصہ لے سکتے ہیں۔

پارٹی کے صدر ندیم کشش نے پیر کو اس کی لانچ پر انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ان کی پارٹی کی سیاست باقی سیاسی جماعتوں سے مختلف نہیں ہوگی۔

ان کا کہنا تھا: ’ہم نے تمام سیاسی جماعتوں کا ایک نچوڑ نکالا ہے۔ یہ کھسرا سیاست پہلے ہی کر رہے ہیں۔ جو ہماری کھسرا سیاست چل رہی ہے، ہم بھی وہی کریں گے۔ کوئی نیا طریقہ نہیں نکالیں گے۔ کھسرا سیاست کا مطلب یہ ہے کہ ہم بھی سڑکوں پر نکلتے ہیں، نعرے لگاتے ہیں، ہمارے بھی جیالے ہیں، ہم بھی رونا پیٹنا جانتے ہیں، لیکن ہم ایک نارمل طریقے سے آئیں گے کیونکہ ہم ایک نئی جماعت ہیں۔‘

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو مزید بتایا کہ آزاد پارٹی میں گرو، چیلوں کا کوئی کلچر نہیں ہوگا۔  ’جس طرح جرگہ سسٹم ختم کیا گیا ہے، اسی طرح گرو چیلہ سسٹم بھی ختم کیا جائے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ندیم کشش نے مزید بتایا: ’میں خود گرو چیلہ سسٹم سے آیا ہوں اسی لیے مجھے پتہ ہے کہ اس کلچر میں کیسے خواجہ سراؤں کو سیکس ورک میں اور بھیک مانگنے میں پھنسایا گیا ہے۔ میں نے دیکھا ہے کہ کیسے اس سسٹم میں گھروں میں جرائم کے خود ہی فیصلے لے لیے جاتے ہیں اور کیسے لوگوں کو سزائیں دے دی جاتی ہیں۔‘

خواجہ سراؤں کی بہبود کے لیے حکومتی کاوشوں پر تنقید کرتے ہوئے ندیم نے کہا کہ ان خواجہ سراؤں کو حکومتی مدد کی زیادہ ضرورت ہے جن کے پاس تعلیم نہیں ہے۔ ’پہلے خواجہ سرا کہہ کر اپنی تصویریں بنوا لیتے ہیں لیکن اصل میں پڑھے لکھے امیر خواجہ سراؤں کو ان مشکلات کا سامنا نہیں جو ایک لوئر مڈل کلاس خواجہ سرا کو ہے۔ جو خواجہ سرا یونیورسٹی سے پڑھ کر اچھی نوکریاں کر رہے ہیں، امیر گھرانوں سے ہیں، انہیں غریبوں کے مسائل نہیں معلوم۔ حکومت اگر ان لوئر مڈل کلاس خواجہ سراؤں کی سنے تو مسائل جلد حل ہوں گے اور ہماری پارٹی ان ہی خواجہ سراؤں کے لیے کام کرے گی۔‘

ندیم نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ پارٹی کی رجسٹریشن اور اس کا لوگو فی الوقت تیار نہیں ہے لیکن جلد ہی اس کا بھی اعلان کر دیا جائے گا۔

مکمل انٹرویو دیکھیے:

 

 

زیادہ پڑھی جانے والی ملٹی میڈیا