فن سین فائلز میں پاکستانی بینک: ’یہ غیر ضروری طور پر اچھالا جا رہا ہے‘

منی لانڈرنگ میں عالمی بینکوں کے کردار کے حوالے سے ایک حالیہ تحقیقاتی رپورٹ میں چھ پاکستانی بینکوں کے نام سامنے آنے پر بینکنگ کے ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان سے غیر قانونی طور پر رقوم کی منتقلی اب تقریباً ناممکن ہے۔

سٹیٹ بینک آف پاکستان کے سابق گورنر سلیم رضا کا کہنا تھا  کہ ایف اے ٹی ایف)کی شرائط کے باعث پاکستان میں مزید بہتر اور کارآمد نظام متعارف کرائے گئے ہیں۔ (اے ایف پی فائل)

منی لانڈرنگ میں عالمی بینکوں کے کردار کے حوالے سے سامنے آنے والی ایک حالیہ تحقیقاتی رپورٹ میں چھ پاکستانی بینکوں کے نام سامے آئے ہیں تاہم بینکنگ کے شعبے سے تعلق رکھنے والے ماہرین آج کے پاکستان میں بینکوں کے ذریعے غیر قانونی طریقے سے رقوم کی بیرون یا اندرون ملک منتقلی یا منی لانڈرنگ کو  تقریباً نا ممکن قرار دیتے ہیں۔ 

سٹیٹ بینک آف پاکستان کے سابق گورنر سلیم رضا نے پاکستانی بینکوں کے ذریعے منی لانڈرنگ کے امکانات کو نہ ہونے کے برابر قرار دیا۔ 

وہ کہتے ہیں کہ ’خصوصاً گذشتہ دو سالوں کے دوران بینکوں نے پیسوں کی غیر قانونی طریقے سے منتقلی کو پکڑنے والے اپنے نظام کو بہت زیادہ بہتر بنا لیا ہے۔‘

انڈپینڈنٹ اردو نے پاکستان کے مرکزی بینک کے سابق سربراہ اور دوسرے بینکرز سے 2011 اور 2012 کے دوران چھ پاکستانی بینکوں پر 25 لاکھ امریکی ڈالرز کی منی لانڈرنگ کی اطلاعات سے متعلق رائے کے لیے رابطہ کیا۔ 

ماہرین کی آرا میں پاکستان میں بینکنگ کے شعبے میں منی لانڈرنگ کے خلاف کیے گئے اقدامات پر اتفاق پایا گیا۔ 

یاد رہے کہ امریکی انٹرنیٹ میڈیا کمپنی بزفیڈ اور تحقیقاتی صحافیوں کے بین الاقوامی کنسورشیم (آئی سی آئی جے) کی ایک رپورٹ میں چھ پاکستانی بینکوں سمیت 170 ملکوں کے مختلف بینکوں کی 1999 سے 2017 کے دوران دو کھرب ڈالرز کی منی لانڈرنگ کرنے والے مالیاتی اداروں کے طور پر نشاندہی کی گی ہے۔  

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

منی لانڈرنگ کے الزامات کی زد میں آنے والے پاکستانی بینکوں میں الائیڈ بینک، یونائیٹڈ بینک، حبیب میٹروپولیٹن بینک، بینک الفلاح، سٹینڈرڈ چارٹرڈ بینک اور حبیب بینک شامل ہیں۔  

سٹیٹ بینک آف پاکستان کے سابق گورنر سلیم رضا کا کہنا تھا کہ 12-2011 میں بھی منی لانڈرنگ کو پکڑنے کے سلسلے میں پاکستانی بینک کافی حساس تھے، تاہم فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کی شرائط کے باعث پاکستان میں مزید بہتر اور کارآمد نظام متعارف کرائے گئے ہیں۔ 

پاکستان میں سرمایہ کاری کے مشہور ادارے ایم سی بی عارف حبیب سے منسلک نسیم بیگ کا کہنا تھا کہ چند سال پہلے تک بینکوں کی منی لانڈرنگ پر بہت زیادہ نظر نہیں تھی۔ 

انہوں نے کہا کہ اب پاکستانی مالیاتی ادارے رقوم کی نقل و حمل پر گہری نظر رکھتے ہیں، اور چھوٹی سے چھوٹی بھی غیر معمولی حرکت کو پکڑنے کی صلاحیت حاصل کر لی گئی ہے۔ 

نیشنل بینک آف پاکستان کے سابق صدر علی رضا کا کہنا تھا کہ پاکستان میں منی لانڈرنگ کی حوصلہ شکنی اور پتہ لگانے کے لیے دنیا کا بہترین نظام موجود ہے، جسے اگر صحیح طریقے سے استعمال کیا جائے تو ایسا ہونا ناممکنات میں سے ہو گا۔ 

انہوں نے مزید کہا کہ بعض اوقات عام سی لین دین کو بھی منی لانڈرنگ قرار دیا جا سکتا ہے۔ 

انہوں نے مزید کہا کہ بعض اوقات بینک کے لیے سینکڑوں برانچوں میں ہونے والی لین دین پر نظر رکھنا بھی آسان نہیں رہتا۔ ’ایسے میں ایک آدھ واقعہ ہو جانا بعید از قیاس قرار نہیں دیا جا سکتا۔‘

منی لانڈرنگ کے حوالے سے سامنے آنے والی معلومات کے حوالے سے سٹیٹ بینک آف پاکستان کے ترجمان نے رابطے پر اس سلسلے میں بتایا کہ مرکزی بینک کا متعلقہ محکمہ اس رپورٹ کا جائزہ لے رہا ہے اور اس سلسلے میں کچھ کہنا ابھی قبل از وقت ہو گا۔  

معاملہ اچھالا جا رہا ہے

سلیم رضا نے کہا کہ ’دو کھرب ڈالرز میں سے صرف پچیس لاکھ ڈالرز کی منی لانڈرنگ پاکستانی بینکوں پر تھوپی جا رہی ہے۔ اگر یہ سچ بھی ہے تو یہ رقم کوئی اتنی بڑی تو نہیں۔‘

نسیم بیگ نے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ یورپی بینکوں پر اس سے بہت بڑی رقوم کی منتقلی کے الزامات لگے اور ثابت بھی ہو چکے ہیں۔  

ان کے خیال میں پاکستانی بینکوں سے متعلق خبر کو ’غیر ضروری طور پر اچھالا جا رہا ہے۔‘

نیشنل بینک کے سابق صدر علی رضا کا کہنا تھا: ’یہ اتنی تھوڑی رقم ہے، ہو سکتا ہے ایسا چند نااہل اہلکاروں کی غلطیوں یا غفلتوں کے باعث ہوا ہو۔‘

بزفیڈ اور آئی سی آئی جے کی تحقیق کے مطابق مجموعی طور پر دو کھرب کی مبینہ منی لانڈرنگ میں سے چھ پاکستانی بینکوں نے پچیس لاکھ ڈالر کی غیر قانونی منتقلی کی۔ 

پاکستانی بینکوں کی مبینہ منی لانڈرنگ (25 لاکھ ڈالر) رقوم کی مجموعی غیر قانونی منتقلی (دو کھرب ڈالر) کا ایک فیصد سے کم بنتی ہے جبکہ ہر شناخت شدہ پاکستانی بینک کے حصہےمیں چار لاکھ امریکی ڈالرز سے کچھ زیادہ رقم آتی ہے۔ 

منی لانڈرنگ کیسے روکی جاتی ہے؟ 

سلیم رضا نے کہا کہ بینک ہر اکاؤنٹ ہولڈر نے اکاؤنٹ کھلوانے کا مقصد اور رقوم کی ممکنہ لین دین سے متعلق پوچھتے ہیں، اور کبھی بھی بیان کردہ رقم سے زیادہ لین دین کی صورت میں ایک نظام فعال ہو جاتا ہے۔ 

نسیم بیگ نے بتایا کہ ان کے ادارہ نے صرف منی لانڈرنگ کی حوصلہ شکنی کے لیے ایک بڑا سٹاف رکھا ہوا ہے جس کا کام غیر معمولی لین دین پر نظر رکھنا اور اسے رپورٹ کرنا ہے۔ 

علی رضا نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا: ’اگر ایک اکاؤنٹ میں پہلے سے درج رقم سے زیادہ پیسے آتے ہیں تو برانچ منیجر کے کان کھڑے ہو جانا چاہییں اور وہ اس لین دین کی رپورٹ اپنے ہیڈ آفس کو کرے گا جہاں سے رپورٹ سٹیٹ بینک اور بعد ازاں دوسرے اداروں کو جائے گی۔‘

نسیم بیگ نے کہا کہ سٹیٹ بینک میں بھی مانیٹرنگ یونٹ موجود ہے جس کا کام خاص طور سے منی لانڈرنگ کے زمرے میں آنے والی لین دین پر نظر رکھنا ہے۔ 

رپورٹ میں مزید کیا ہے؟ 

بزفیڈ نیوز نے آئی سی آئی جے کے ساتھ بین الاقوامی بینکوں کی جانب سے امریکی محکمہ خزانہ کے انٹیلی جینس یونٹ فنانشل کرائمز انفورسمنٹ نیٹ ورک (فِنسین) کو بھیجے گئی 21 سو مشکوک سرگرمیوں کی رپورٹس شئیر کیں۔ 

رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 29 مشکوک لین دین پر فلیگ لگایا گیا تھا۔ ان میں سے بینکوں کو موصول ہونے والی رقوم کی مالیت 19 لاکھ 42 ہزار 560 اور بھیجی جانے والی لین دین کی مالیت تقریباً ساڑھے چار لاکھ امریکی ڈالر تھی۔  

رپورٹ میں بتایا گیا کہ الائیڈ بینک کے پاس مبینہ طور پر 12 مشکوک لین دین تھیں جنہیں دس لاکھ ڈالر سے زیادہ موصول ہوئے، یونائیٹڈ بینک کی آٹھ مشکوک ٹرانزیکشنز سے لگ بھگ چار لاکھ ڈالر موصول ہوئے، حبیب میٹرو نے دو مشکوک ٹرانزیکشن سے تقریباً 75 ہزار ڈالر موصول کیے، بینک الفلاح نے تین ٹرانزیکشنز سے تقریباً ایک لاکھ ڈالر وصول اور ساڑھے چار لاکھ ڈالر بھیجے، سٹینڈرڈ چارٹرڈ بینک نے  چار ٹرانزیکشن کے ذریعے تقریباً دو لاکھ ڈالر وصول کیے اور حبیب بینک نے مشکوک لین دین ڈیڑھ لاکھ ڈالر سے زیادہ وصول کیے۔  

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان