’ریسکیو1122 انسان بچاتا ہے جانور نہیں‘

گذشتہ دنوں ریسکیو 1122 اس وقت کڑی تنقید کا نشانہ بنا جب ایک شہری نے کہا کہ ان کی ایک زخمی لومڑی کی جان بچانے کی درخواست کو کوئی اہمیت نہیں دی گئی۔ تاہم ادارے کا کہنا ہے کہ جانوروں کو ریسکیو کرنا سرے سے ان کی ذمہ داری ہی نہیں ہے۔

2016 کی اس تصویر میں ایدھی اینیمل ہوم کا ایک ریسکیو اہلکار ایک آوارہ کتے کو اشاروں سے سمجھاتے ہوئے (اے ایف پی)

چند دن قبل سوشل میڈیا پر ریسکیو 1122 پر صارفین نے کڑی تنقید کی جب ایک شخص کا بیان سامنے آیا کہ ایمرجنسی کالز پر ریسپانس دینے والے ادارے نے ان کی اس کال کو کوئی اہمیت نہیں دی جس میں انہوں نے ایک زخمی لومڑی کی جان بچانے کی درخواست کی۔

زبیر قریشی نامی شخص نے ایک ٹویٹ میں لکھا تھا کہ انہیں اسلام آباد کے ایف نائن پارک میں بہت بری حالت میں لومڑی پڑی ملی تھی جس کو بچانے کے لیے انہوں نے ریسکیو 1122 کو کال کی لیکن جواب میں انہوں نے معذرت کر لی اور کہا کہ وہ صرف پالتو جانوروں کو ریسکیو کر سکتے ہیں، جنگلوں اور پارکوں کے جانوروں کو نہیں۔

زبیر قریشی کا یہ بیان جاننے کے بعد بعض صارفین نے حیرت اور مایوسی کا اظہار کیا اور کہا کہ بھلا یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ جو ادارہ جانیں بچانے کے لیے مشہور ہے اس نے ہی انکار کر دیا۔

پاکستان میں ریسکیو 1122 کے ادارے کا قیام ہنگامی تیاری، تحفظ، ریسپانس اور روک تھام کےمقصد کے لیے عمل میں لایا گیا تھا۔ یہ ادارہ سوشل میڈیا پیجز پر لکھتا ہے کہ اس کا کام معاشرتی طور پر ذمہ دار، صحت مند اور محفوظ آبادیوں کی تعمیر میں اپنا کردار ادا کرنا ہے، جہاں تمام شہریوں کو بروقت اور بلا تفریق ہنگامی صورت حال میں امداد فراہم کی جا سکے۔

عوامی آگہی

 اسلام آباد میں میونسپل میٹروپولیٹن کارپوریشن (ایم سی آئی) کے نیچے کام کرنے والے ریسکیو کے ادارے کو اگرچہ بعض شہریوں اور سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے تنقید کا نشانہ بنایا گیا تاہم جب انڈپینڈنٹ اردو نے حقائق معلوم کرنے کے لیے ادارے سے رابطہ کیا تو ایم سی آئی کے ترجمان محسن شیرازی نے بتایا کہ دراصل جانوروں کو ریسکیو کرنا سرے سے ان کی ذمہ داری ہی نہیں ہے۔

انہوں نے عوام کی آگہی اور معلومات کے لیے بتایا کہ ہر وہ آفت جس میں صرف کسی انسان کی جان کو خطرہ ہو، اسلام آباد کا ریسکیو 1122 فوری ریسپانس دیتا ہے۔ ’اگر کسی جانور کو خطرہ لاحق ہو، چاہے وہ چڑیا گھر، جنگل یا پارک میں ہوں یا کسی اور جگہ پر، اس کے لیے شہریوں کو وائلڈ لائف والوں کو کال کرنا چاہیے نہ کہ ریسکیو دفتر۔ البتہ اگر ایک جانور مر چکا ہو اور وہ سڑک پر پڑا ہو جس سے کوئی دوسرا حادثہ جنم لے سکتا ہو، اس صورت میں ہمارا سینیٹیشن کا محکمہ اس کو ہٹاتا ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

محسن شیرازی نے مزید بتایا کہ ان کے ریسکیو دفاتر اگر کسی جانور کو ریسکیو کرنے کے لیے کال آجائے تو ریسکیو کے نمائندے انہیں متعلقہ محکمے کا نمبر دے دیتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پہلے اسلام آباد کے ریسکیو دفاتر جانوروں کو بھی ریسکیو کرتے تھے لیکن بہت عرصے سے یہ ذمہ داری جنگلی حیات کے تحفظ کے ادارے کو سونپ دی گئی ہے۔

اگر دیگر  ممالک کی مثال لی جائے جہاں ایمرجنسی سروسز کے دفاتر مختلف نمبروں سے پہچانے جاتے ہیں تو وہاں کے ریسکیو ادارے صرف انسانوں کو ریسکیو کرنے کی ذمہ داری اٹھاتے ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ اگر کوئی شہری غلطی سے ریسکیو کے دفتر کال کرلیتا ہے تو ادارہ ان کا رابطہ فوری طور پر متعلقہ محکمے کے ساتھ کروا لیتا ہے۔

امریکہ، کینیڈا اور میکسیکو میں ایمرجنسی سروسز کے ادارے 911، برطانیہ میں 112 بنگلادیش، ملائیشیا اور سنگاپور میں 999 ، آسٹریلیا میں 000، انڈیا میں 108 کے نمبروں سے جانے جاتے ہیں۔ پاکستان میں ہنگامی حالات میں ریسپانس دینے کا ریسکیو 1122 نظام 2004 میں لاہور سے شروع ہوا، جس کے بعد رفتہ رفتہ یہ نظام پورے پاکستان میں پھیل گیا۔ صرف اسلام آباد کے مختلف علاقوں میں ریسکیو کے 11 دفاتر ہیں، تاکہ کسی بھی ایمرجنسی کی صورت میں فوری طور پر پہنچا جا سکے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان