وزیر اعظم عمران خان نے کراچی میں بارشوں کے بعد شہر کی بدحالی کو دیکھتے ہوئے 1.1 کھرب روپے کے ترقیاتی پیکیج کا اعلان کیا تھا۔
وزارت منصوبہ بندی نے اس پیکیج کو ’کراچی ٹرانسفورمیشن پلان‘ کا نام دیا جس کے تحت کراچی میں پانچ بڑے منصوبوں پر کام ہوگا۔
اعلامیے کے مطابق اس پلان میں کراچی میں پانی کی فراہمی کے لیے ’کے فور پراجیکٹ‘، کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی، ریلوے فریٹ کوریڈور، گرین لائن پراجیکٹ کی تکمیل، کراچی کے ندی نالوں کی صفائی اور ان علاقوں کے رہائشیوں کی آباد کاری کے لیے کام کیے جائیں گے۔
تاہم کراچی کی لیے اربوں روپے کے اس پیکیج کے اعلان کے باجود بھی ماہر تعمیرات اور اربن پلینرز اس سے ناخوش ہیں۔
ان کے مطابق کراچی کے مسائل کو حل کرنے کے لیے یہ پیکیج نا کافی ہے۔
اس حوالے سے ہم نے آکسفورڈ یونیورسٹی سے تربیت یافتہ پاکستان کی پہلی خاتون معمار یاسمین لاری اور کراچی اربن لیب کے سینیئر ریسرچر اور اربن پلینر محمد توحید سے بات کی۔
اربن پلینر محمد توحید کے مطابق ’اصل بات یہ ہے کہ وفاق اور سندھ حکومت نے کراچی کے لیے اپنے الگ الگ پلان بنائے ہوئے ہیں اور دونوں کی کوشش ہے کہ ان کے پلان پر عملدرآمد ہو۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’دونوں حکومتیں کراچی کے معاملے میں اب بھی ایک پیج پر نہیں ہیں۔ کسی بھی شہر کی پلاننگ میں اس طرح کی سوچ اور رویہ قابل قبول نہیں ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’کراچی پلان کی مثال ایسی ہے جیسے نئی پیکنگ میں پرانا جوڑا۔ اس پلان کے تحت تمام پرانے منصوبوں میں ایک بار پھر سے پیسے لگائے جا رہے ہیں جن پر پہلے بھی اربوں روپے لگائے جاچکے ہیں اور وہ منصوبے ابھی تک نامکمل ہیں۔ اس کی بہترین مثال ’کے فور‘ پراجیکٹ، کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی اور گرین لائب پراجیکٹ ہے۔‘
پاکستان کی پہلی خاتون معمار یاسمین لاری نے بھی اس معاملے پر انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’جب ہم بات کرتے ہیں ٹرانسفورمیشن کی تو اس کا مطلب ہے کہ چیز بالکل بدل جائے گی لیکن کیا ہم دیکھ سکیں گے کہ کیا ہو رہا ہے؟ کیا کوئی شفافیت ہے اس پلان میں؟ یا خود ہی چیزیں ہو جائیں گی اور ہمیں بس بتا دیا جائے گا۔‘
’سوال یہ ہے کہ کراچی بدلا کیسے جائے گا؟ اس حوالے سے پلان میں کوئی معلومات یا تفصیل نہیں دی گئی۔‘
یاسمین لاری نے ایسے پانچ نکات کی نشاندہی کی ہے جو کراچی کی ترقی اور مثبت تبدیلی کے لیے اہم ہیں مگر اس پلان میں موجود نہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
۔ سڑکوں پر پانی کے بہاؤ پر پابندی:
یاسمین کے مطابق ’پانی کے بچاؤ اور مؤثر نکاسی کے نظام کے لیے یہ بہت اہم ہے کہ ہم پانی کو سڑکوں پر آںے سے روکیں۔ کراچی میں ہر روز یا تو گٹر ابلنے کے باعث یا پھر لوگوں کے گھروں کی چھتوں پر بنی ٹنکیوں میں پانی اوور فلو ہونے کی وجہ سے سڑکوں پر پانی نظر آنا معمول بن گیا ہے۔ اس لیے ہمیں سب سے پہلے سڑکوں پر پانی جانے سے روکنا ہوگا۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم روزانہ کی بنیاد پر سڑکوں اور نالوں کے اطراف سے کچرے صفائی کو یقینی بنائیں اور گھروں کی چھتوں سے روڈ پر پانی گرانے کے عمل کو روکیں۔ ہمیں اس حوالے سے قانون سازی کرنا ہوگی کیوں کہ جب تک یہ عمل نہیں روکے گا کراچی کی سڑکیں خراب ہی رہیں گی۔‘
۔ کراچی کے ندی نالوں کے نقشے:
یاسمین لاری نے کہا کہ یہ تاثر غلط ہے کہ تجاوزات صرف غریبوں نے کی ہیں کیوں کہ کراچی میں کئی تجاوزات صاحب حیثیت افراد نے بھی کی ہیں۔ امیروں کی جانب سے کی گئی تجاوزات کی معلومات کہاں ہے اور اس پلان میں کیوں ان تجاوزات کو بھی ہٹانے کی بات نہیں کی گئی؟‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’جہاں تک ندی نالوں کی صفائی اور تجاوزات کی بات ہے تو کہاں ہیں وہ نقشے جن پر یہ واضح کیا گیا ہو کہ کراچی کے نالوں کہ چوڑائی پہلے اتنی تھی اور اب اتنی رہ گئی ہے، ان پر کون سی آبادیاں کب قائم ہوئیں اور اس کا ذمہ دار کون ہے؟ یہ معلوامات کہیں بھی موجود نہیں ہے۔ اس لیے تجاوزات ہٹانے کے آپریشن میں شفافیت نہیں ہے۔‘
۔ کنکریٹ کا کم استعمال:
پاکستان کی پہلی خاتون معمار کے مطابق ’کراچی کی زمین بالکل سوکھ چکی ہے اس لیے پانی کے بچاؤ اور مؤثر نکاسی کے نظام کے لیے یہ بہت اہم ہے کہ ہم پانی کو زمین میں جذب ہونے دیں اس کے لیے پورا شہر ایک اسفنج کی طرح ہونا چاہیے۔‘
’یہ بہت ضروری ہے کہ ہم کنکریٹ کے استعمال کو کم کریں۔ کراچی میں عمارتیں، فٹ پاتھ اور تقریباً ہر چیز کی تعمیر کے لیے کنکریٹ ہی استعمال ہوتا ہے۔ کنکریٹ ناصرف بہت مہنگا ہے بلکہ اس کو بنانے میں کافی توانائی بھی ضائع ہوتی ہے۔ اس سے بہتر ہے کہ کم از کم پیومنٹس اور فٹ پاتھوں کی تعمیر میں ٹیراکوٹا ٹائلز استعمال کیے جائیں۔ یہ ٹائلز کنکریٹ کی آدھی قیمت میں بنائے جاسکتے ہیں اور یہ پانی کو کافی حد تک جذب کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس طرح بارشوں کے بعد سڑکوں پر پانی جمع ہونے کا مسئلہ بھی کافی حد تک حل ہوجائے گا۔‘
۔ کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی:
یاسمین کا کراچی سرکلر ریلوے کے حوالے سے کہنا تھا کہ ’مجھے یاد ہے 1999 میں بھی کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی کا کام شروع کیا گیا تھا اور ایک سیکشن بنا کر چھوڑ دیا گیا تھا۔ اس کی بحالی یقیناً خوش آئند ہے لیکن اس کا موجودہ پلان تقریباً 20 سال پرانا ہے۔ ان 20 سالوں میں کراچی کافی بدل چکا ہے، کئی پٹریاں اکھڑ چکی ہیں، کئی جگہوں پر آبادیاں اور عمارتیں بن گئی ہیں۔ اس پیکیج میں یہ نہیں بتایا گیا ہے کہ سرکلر ریلوے کی بحالی کے لیے کیا نیا پلان بنایا گیا ہے۔ اگر پرانے پلان کے مطابق ہی اسے بحال کرنے کی کوشش کی جارہی ہے تو اس سے کوفی شہریوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔‘
۔ اداروں کی مضبوطی:
یاسمین کے مطابق انہیں اس پلان میں اداروں کو مضبوط بنانے کے لیے کسی قسم کے سٹررکلچرل ریفارمز نظر نہیں آئے اور نہ ہی اب تک کسی پریس کانفرنس میں اس حوالے سے بات کی گئی ہے۔‘
’کے ایم سی، ڈی ایم سی اور ایس بی سی اے جیسے ادارے انتہائی کمزور اور کرپٹ ہوچکے ہیں۔ کراچی کے نظام کو بہتر طریقے سے چلانے کے لیے ان اداروں کا مضبوط ہونا بہت ضروری ہے کیوں کہ فی الحال مختلف پراجیکٹس میں حکومتوں کی جانب سے پیسے تو لگا دیے جائیں گے لیکن ان کی دیکھ بھال کا کام مقامی اداروں کا ہی ہے، جس پر اب دونوں حکومتوں کی جانب سے کوئی توجہ نہیں دی گئی ہے۔‘