کراچی سے کچرا اٹھانے کا پیچیدہ نظام ہی اصل خبر ہے

کراچی میں روزانہ 14 ہزار ٹن عام گھریلو کچرا پیدا ہوتا ہے۔ جب کہ ایک آزاد اندازے کے مطابق اس کچرے کا صرف نصف اٹھا کر مستقل طور ٹھکانے لگایا جاتا ہے۔

چراغ تلے اندھیرا (تصاویر۔ امرگُرڑو)

کیا آپ کو معلوم ہے کہ پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں کچرا اکٹھا اور ٹھکانے لگانے کا کام کتنے ادارے کرتے ہیں؟ دو چار نہیں جناب پورے 19 خود مختار ادارے ہیں جو اس صفائی میں مصروف ہیں۔  

حکومت سندھ کی جانب سے کچرا اٹھانے اور ٹھکانے لگانے کے لیے قائم کردہ سندھ سالڈ ویسٹ مینیجمنٹ بورڈ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر آپریشنز طارق علی نظامانی کے مطابق کراچی میں کچرا اٹھانے کا اختیار کسی ایک ادارے کی بجائے، شہر میں موجود خود مختیار وفاقی اداروں، کینٹونمنٹ بورڈ، ریلوے، صعنتی زون، مقامی حکومت اور صوبائی حکومت کے کچھ اداروں سمیت کراچی کے ایسے 19 اداروں کے پاس ہے۔

انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے طارق علی نظامانی نے دعویٰ کیا: 'جب تک کراچی میں موجود تمام اداروں کی حدود سے کچرا اٹھانے کی ذمہ داری مکمل طور پر سندھ سالڈ ویسٹ مینیجمنٹ بورڈ کو نہیں دی جاتی، کراچی کی مکمل صفائی ناممکن ہے۔'

سندھ کی صوبائی حکومت کی جانب سے کراچی میں کئی بار خصوصی صفائی مہم چلانے، شہر کے کوڑے کو اٹھانے اور ٹھکانے لگانے کے لیے کئی ادارے تشکیل دینے کے باجود شہر کا کچرا تاحال مقامی میڈیا میں شہ سرخی بنا رہتا ہے۔ گذشتہ دنوں شہر میں سیلاب آنے کی ایک وجہ یہ کچرا بھی بتایا جاتا ہے۔

حکومتی دعوؤں کے برعکس کراچی کے چند علاقوں کو چھوڑ کر شہر کی رہائشی عمارتیں ہوں، تجارتی مراکز، بازار، تفریحی مقام، عبادت گھر، تعلیمی ادارے ہوں یا کچی آبادیاں، ساحل سمندر ہو یا ساحلی بستیاں ہر جگہ کچرے کے ڈھیر نظر آتے ہیں۔

کراچی شہر کے کس حصے پر کس کا انتظامی کنٹرول؟

کراچی میں وفاقی حکومت کے زیر انتظام اداروں میں سے چھ چھاؤنیاں بشمول کلفٹن کینٹونمنٹ، فیصل، کراچی، ملیر، کورنگی اور منوڑہ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستان ائیر فورس مسرور ائیر بیس، پاکستان ائیر فورس فیصل ائیربیس سمیت دو ملٹری ائیر پورٹس، کراچی پورٹ اور بن قاسم پورٹ سمیت دو بندرگاہیں، سول ایوی ایشن، بحریا ٹاؤن، ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی یعنی ڈی ایچ اے، ریلوے، رینجرز، کوسٹ گارڈ، میری ٹائم سکیورٹی ایجنسی، پاکستان نیوی، ائیرفورس، قومی شاہراہ یعنی نیشنل ہائی وے، سپر ہائی وے، شہر کے بڑی سرکاری جامعات، سائٹ، کورنگی انڈسٹریل ایریا سمیت شہر کے پانج بڑے صعنتی زون کا مکمل انتظامی کنٹرول ان اداروں کے پاس ہے۔ 

شہری حکومت کے 'کراچی ترقیاتی حکمت عملی منصوبہ 2020' کے مطابق کراچی شہر کے کُل رقبے کا 48.5 علاقہ سندھ حکومت، 12.3 فیصد وفاقی اداروں، 32.7 فیصد شہری حکومت جبکہ 6.5 فیصد رقبہ صعنتی زون اور تعلیمی اداروں کے زیر انتظام ہے۔

کراچی شہر میں صوبائی قانون کے مطابق چھ اضلاع بشمول کراچی شرقی، کراچی غربی، کراچی جنوبی، کراچی وسطی، ضلع ملیر اور ضلع کورنگی بنے ہوئے ہیں اور وفاقی حکومت کے تمام ادارے تیکنیکی طور پر ان اضلاع کی حدود میں واقع ہیں مگر ان انتظامی کنٹرول مکمل طور پر ان اداروں کے پاس ہے۔

کراچی شہر سے کچرا اٹھانے، ٹھکانے لگانے کی ذمہ داری کس کی؟

سندھ سالڈ ویسٹ مینیجمنٹ بورڈ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر آپریشنز طارق علی نظامانی کے مطابق کراچی شہر کے کُل رقبے کا 12.3 فیصد انتظامی کنٹرول رکھنے والے وفاقی ادارے بشمول بندرگاہیں، ملٹری و سول ائیرپورٹ، چھاؤنیوں اور مسلح افواج کے زیر انتظام علاقوں سے قانونی طور پر وہ ادارے کچرا اکٹھا کرنے کی ذمہ دار ہیں۔

اس کے علاوہ 6.5 فیصد رقبہ صعنتی زون اور تعلیمی اداروں کے زیر انتظام علاقوں سے کوڑا جمع کرنا ان اداروں کا کام ہے۔

طارق علی نظامانی نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا: 'یہ تمام وفاقی و تعلیمی ادارے، چھاؤنیاں اور صعنتی علاقے کی انتظامیہ اپنے علاقوں سے کچرا جمع کرنی کی پابند ہیں اور وہ اپنے علاقوں سے کچرا جمع کرنے کے بعد شہر میں موجود عارضی کچرا کنڈیوں تک پہنچانے کے پابند ہیں، جہاں سے ڈسٹرکٹ میونسپل کارپوریشن یا سندھ سالڈ ویسٹ مینیجمنٹ بورڈ ان عارضی کچرا کنڈیوں میں سے کچرے کو مستقل کچرا کنڈیوں یا گاربیج ڈمپنگ سائٹ تک پہچانے کے ذمہ دار ہیں۔'

ان وفاقی و تعلیمی اداروں کے زیرانتظام علاقوں کے علاوہ باقی شہر سے کچرا اٹھانے کی ذمہ داری سندھ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ اور ڈسٹرکٹ میونسپل کارپوریشن کی ہے۔

کراچی انتظامی طور پر بلدیاتی نظام کے تحت چھ اضلاع بشمول کراچی شرقی, کراچی غربی, کراچی جنوبی، کراچی وسطی, ضلع ملیر اور ضلع کورنگی پر مشتمل ہے۔

منیجنگ ڈائریکٹر سندھ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ کاشف گلزار شیخ نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا: 'کراچی کے کل چھ اضلاع میں سے تین اضلاع بشمول جنوبی، کراچی شرقی اور ضلع ملیر سے کچرا جمع کرنا اور ٹھکانے لگانے کی ذمہ داری سندھ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ کی ہے، جبکہ باقی تین اضلاع کراچی وسطی، کراچی غربی اور ضلع کورنگی کی حدود سے کچرا جمع کرکے عارضی کچرا کنڈیوں تک پہچانا وہاں کی ڈسٹرکٹ میونسپل کارپوریشن کی ذمہ داری ہے۔‘

حال ہی میں سندھ حکومت کی جانب سے نئے ضلع کیماڑی کے قیام کے بعد اب کراچی میں سات اضلاع ہوگئے ہیں، مگر چونکہ یہ نیا ضلع، کراچی غربی ضلع کو توڑ کر بنایا گیا ہے اس لیے اس نئے اضلع کی کچرے ذمہ داری بھی سندھ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ کی ہوگی۔

سندھ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ کیا کرتا ہے؟

سندھ حکومت نے 2014 میں سندھ اسمبلی سے بل پاس کرا کے سندھ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ کا قیام کیا۔ جس کا کام صوبے بھر سے عام گھریلو کچرا جمع کرنا، اسے منتقل کرنا اور ٹھکانے لگانا ہے۔ سندھ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ کے اس وقت بقول کاشف گلزار شیخ، 84 ملازمیں ہیں۔ دلچسپ بات یہ کہ بورڈ کے قیام کو چھ سال کا عرصہ گزرنے کے باجود بورڈ نے کوئی بھی ملازم بھرتی نہیں کیا اور تمام ملازمین سندھ حکومت کے مختلف ادروں کے ہیں، جنہیں ڈپوٹیشن پر بورڈ میں مقرر کیا گیا ہے۔ بورڈ کا سالانہ بجٹ ساڑھے چھ ارب روپے ہے جس میں ملازمین کی تنخواہ کے علاوہ صوبے بھر سے کچرا جمع کر کے ٹھکانے لگانا ہے۔

 کراچی کے تین اضلاع بشمول جنوبی، کراچی شرقی اور ضلع ملیر سے کچرا اٹھانے کے لیے بورڈ نے تین چینی کمپنیوں کی مدد لے ہے، جو ڈسٹرکٹ میونسپل کارپوریشن کے ملازمین اور ذیلی ادارے نکاسی آب کے ملازمین کو تنخواہ پر رکھا ہے، جو صفائی کا کام کرنے کے ساتھ، کچرا جمع کرتے ہیں، چینی کمپنیاں انھیں تنخواہ کی مد میں پیسے ادا کرتی ہے، اس کے علاوہ ہر جگہ پر ڈسٹ بن رکھنا بھی ان کپمنیوں کی ذمہ داری ہے۔

یہ چینی کمپنیاں بورڈ سے ماہوار پیسے لیتی ہیں۔ گزشتہ سال ضلع کراچی غربی میں کام کرنی والی چینی کمپنی نے پیسہ لینے کے باجود کچرا نہ اٹھایا تو سندھ حکومت نے اس کمپنی کا کانٹریکٹ ختم کردیا تھا جو حال ہی میں دوبارہ بحال کردیا گیا ہے۔  

کاشف گلزار شیخ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: 'کراچی میں موجود چھ فوجی چھاؤنیوں سمیت وفاقی اداروں سمیت 19 اداروں کی حدود سے کچرا اٹھانے کی ذمہ داری ان اداروں کی ہے، وہ کچرا اپنی حدود سے اٹھا کر عارضی کچرا کنڈیوں میں رکھیں گے، اس کے علاوہ کراچی کے جن اضلاع میں بورڈ کام نہیں کر رہا جن میں تین اضلاع کراچی وسطی، کراچی غربی اور ضلع کورنگی شامل ہیں، ان کی حدود سے کچرا جمع کرکے عارضی کچرا کُنڈیوں تک پہچانا وہاں کی ڈسٹرکٹ میونسپل کارپوریشن کی ذمہ داری ہے۔ جس کے بعد بورڈ شہر کے تمام عارضی کچرا کُنڈیوں سے کچرا اٹھا مستقل طور پر گاربیج ڈمپنگ سائٹ پر منتقل کرے گا۔'

مگر فوجی چھاؤنیوں سمیت وفاقی اداروں سمیت 19 اداروں اور ڈسٹرکٹ میونسپل کارپوریشن کے زیر انتظام والے علاقوں میں پیدا ہونے والا کچرا شہر کے عارضی کچرا کنڈیوں تک نہیں پہنچ رہا۔ ان علاقوں کا کچھ کچرا شہر کے نالوں میں پھینک دیا جاتا، اس طرح ہر بارش کے بعد کراچی میں شہری سیلاب عام ہو رہے ہیں۔

اس کے علاوہ قانونی طور سندھ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ کی زمہ داری صرف روزانہ پیدا ہونے والے عام گھریلو کچرے کو اٹھانا اور ٹھکانے لگانا ہے۔

کراچی شہر کے 123 بڑے اور سیکڑوں چھوٹے عوامی پارکوں اور شہریوں کی مکانات یا دیگر جگہوں پر لگے درختوں یا گھاس کی کانٹ چھانٹ کے بعد پیدا ہونے والے کچرے کو بورڈ نہ تو جمع کرے گا نہ ہی ٹھکانے لگائے گا۔

طارق علی نظامانی کے مطابق: 'یہ عوامی پارکوں سے پیدا ہونے والے کچرے کو شہر سے پاہر لے جانے کی ذمہ داری بلدیہ عظمی کراچی کے ذیلی ادارے محکمہ پارکس اینڈ ہارٹی کلچر کی ہے۔ مگر محکمہ پارکس اینڈ ہارٹی کلچر پارکوں سے پیدا ہونے والا کچرا بھی عام کچرے کے ساتھ پھینک دیتا ہے۔اس کے علاوہ عام شہریوں کی ذاتی پارکوں سے پیدا ہونے والے کچرے کو متعلقہ ڈسٹرکٹ میونسپل کارپوریشن کے ذیلی ادارے نکاسی آب کی ہے۔'

اس کے علاوہ لکڑی کے پرانے فرنیچر، عام گھریلو استعمال کی پرانی اشیا کو بھی ٹھکانے لگانا محمہ نکاسی آب کی ذمہ داری ہے۔

جبکہ عمارتی ملبہ اٹھانا بھی بورڈ کی ذمہ داری نہیں ہے۔ طارق علی نظامانی کے مطابق: 'کسی نئی عمارت کی تعمیر یا پرانی عمارت کی مرمت کے دوران نکالے گئے عمارتی ملبے کو قانونی طور پر اس عمارت کے مالک یا بلڈر کی ذمہ داری ہے کہ وہ شہر سے باہر ٹھکانے لگائے، مگر لوگ گاڑی کے پیسے بچانے کے لیے عمارتی ملبہ بھی ہمارے کچرے کے ساتھ رکھ دیتے ہیں، اور وہ ہمارے لیے درد سر بنا رہتا ہے۔'

کراچی میں روزانہ کتنا کچرا بنتا ہے، کتنا ٹھکانے لگایا جاتا ہے؟

سندھ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ کے اعداد و شمار کے مطابق کراچی میں روزانہ 14 ہزار ٹن عام گھریلو کچرا پیدا ہوتا ہے۔ جب کہ ایک آزاد اندازے کے مطابق اس کچرے کا صرف نصف اٹھا کر مستقل طور ٹھکانے لگایا جاتا ہے، جبکہ نصف کچرا شہر ہی میں موجود ہوتا ہے جو ہر گزرنے والے دن کے ساتھ دگنا ہوجاتا ہے اور سالوں سے پڑے اس کچرے کا کل تخمینہ لگانا ابھی باقی ہے۔

بقول کاشف گلزار شیخ کے مطابق: 'کراچی میں گھروں، رہائشی علاقوں یا دیگر جگہوں سے کچرا اٹھا کر عارضی کچرا دان یا گاربیج ٹرانفسر سٹیشن پر لایا جاتا ہے، شہر میں ویسے تو 11 عارضی کچرادان ہیں، مگر اس وقت ان میں سے صرف پانچ کام کر رہے ہیں، وہاں سے کچرا مستقل ٹھکانے یا گاربیج ڈمپنگ سائٹ پر لے جایا جاتا ہے، کراچی میں دو گاربیج ڈمپنگ سائٹ بشمول جام چکرو لینڈ فل سائیٹ اور حب ندی کے قریب گونڈ لینڈ فل سائیٹ پاس ہیں۔'

طارق علی نظامانی کے مطابق کراچی شہر کے ہر ضلع کا سرکاری طور پر تخمینہ لگایا گیا ہے وہاں ہر روز کتنا کچرا پیدا ہوتا ہے، جیسے کراچی ضلع جنوبی میں روزانہ ایک ہزار ٹن کچرا پیدا ہونے کا تخمینہ لگیا گیا ہے۔ اس ظرح ملیر ضلع سے روزانہ 7 سو ٹن، ضلع وسطی سے ایک ہزار چھ سو ٹن، کورنگی سے ایک ہزار تین سو ٹن، ضلع کراچی شرقی سے ایک ہزار چار سو اور ضلع کراچی غربی میں روزانہ دو ہزار ٹن کچرا بنتا ہے۔

ان کے مطابق: 'مگر بدقسمتی سے جہاں پر سندھ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ کام نہیں کرتا وہاں سے ہمارے گاربیج ٹرانفسر سٹیشن پر لگائے گئے تخمینہ کا آدھا کچرا ہی پہنچ پاتا ہے۔'

کراچی کے کچرے کا مستقل حل کیا ہے؟

معروف ماہر معاشیات ڈاکٹر قیصر بنگالی نے کہا کہ کراچی میں جب تک مقامی حکومت کو خودمختیار کرکے مضبوط نہیں بنایا جاتا، کراچی کی صفائی کتنے بڑے پیکیج دینے کے باجود صاف نہیں ہوسکتا۔

انڈپینڈنٹ اردو سے خصوصی بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا: 'جس طرح آئین پاکستان میں وفاقی حکومت اور صوبائی حکومتوں کے الگ الگ باب ہیں، جن میں ان حکومتوں کے تمام اختیارات واضح ہیں، اسی طرح جب تک آئین میں مقامی حکومتوں کا باب شامل کرکے ان کے اختیارات واضح نہیں کیے جاتے، تب تک یہ مسائل رہیں گے اور صوبائی حکومتوں کی مرضی ہوگی وہ جیسے چاہیں مقامی حکومتوں سے برتاؤ کریں۔'

ڈاکٹر قیصر بنگالی کے مطابق جیسے لاہور سے پشاور تک جی ٹی روڈ پر ہر 25 کلومیٹر پر ایک چھاؤنی موجود ہے، یا جیسے کوئٹہ میں ائیرپورٹ جانے کے لیے ایک چھاؤنی سے گذرنا پڑتا ہے، یا پھر جیسے سندھ کے دوسرے بڑے شہر حیدرآباد کا مرکزی شہر کینٹونمنٹ پر مشتمل ہے ویسے ہی کراچی کا دو تہائی تین علاقے پر کنٹونمنٹ بنے ہوئے ہیں۔

ان کے مطابق: 'ایک طرف تو ان چھاونیوں کے پاس بڑی ایراضی والے علاقے ہونے کے ساتھ وہ کسی اور ان علاقوں میں مداخلت نہیں کرنے دیتے اور ساتھ میں حکومت سے مختلف سہولیات بھی لیتے ہیں۔ جیسے ان علاقوں میں ٹریفک کو کنٹرول کرنے کے لیے ٹریفک پولیس اور سکیورٹی کے لیے پولیس کام کرتی ہے کب کہ ان علاقوں کو پانی کراچی واٹر اینڈ سوریج بورڈ مہیا کرتا ہے اور یہ سب ادارے سندھ حکومت کے ہیں'۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

قیصر بنگالی نے کہا کراچی میں موجود تمام وفاقی حکومت کے اداروں کے پاس جو بھی زمیں ہے، اس کا اصل مالک سندھ حکومت ہے، یہ زمین ان کو کرائے پر دی گی ہے کسی خاص مقصد کے لیے، مگر وہ ادارے اب زمیں کو اس مقصد، جس کے لیے کرائے پر لی گی تھی، کے بجائے اس زمیں کو آگے بیچ رہے ہیں

قیصر بنگالی کے مطابق شہر میں موجود کینٹونمنٹ بورڈ اور وفاقی حکومت سے منسلق ادارے اپنے علاقوں میں انفراسٹکچر خود ہی ڈزائین کرتے ہیں اور سندھ حکومت کے قوانین کو نہیں مانتے، وہ اپنے فیصلے کرتے ہیں، جیسا کہ اپنے علاقے میں کثیرالمنزلہ عمارت بنا دیتے یہ جانے بغیر کہ اس عمارت کی تعمیر سے سے وہاں ٹریفک کے مسائل تو نہیں ہونگے یا ان عمارتوں سے بارش کے پانی کا قدرتی بہاؤ تو بند نہیں ہوجائے گا۔

ان کے مطابق: 'چند سال قبل کنٹونمنٹ بورڈ کلفٹن نے کلفٹن بلاک نو میں موجود مڈ ایسٹ میڈیکل سینٹر کی عمارت کو گرا کر وہاں کثیر المنزلہ رہائشی عمارت بنانے کا منصوبہ بنایا، جس کے لیے قانونی طور پر کراچی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی سے اجازت نامہ لینا تھا مگر اتھارٹی نے عمارت کی تعمیر کی اجازت نہ دی مگر اس کے باجود کنٹونمنٹ بورڈ کلفٹن نے عمارت کی تعمیر کی منظوری دیتے ہوئے تعمیرات کر لیں، جس سے نکاسی آب کا راستہ بند ہوگیا۔‘

قیصر بنگالی کے مطابق شہری اداروں کے درمیاں تعاون کے فقدان کے باعث سڑکوں کی توڑ پھوڑ، نکاسی آب کے مسائل جنم لیتے ہیں۔

'چند سال پہلے جب سید مُراد علی شاہ وزیراعلی بنے تو انہوں وزیراعلی ہاؤس کے سامنے والی سڑک کو بڑا خرچہ کر کے نیا بنوایا، وہاں مہنگی والی بتیاں بھی لگائی گئیں، مگر سڑک کی تعمیر کے چند روز بعد کے الیکٹرک کی ٹیم پہنچ گئی کہ انہیں بجلی کی تنصیبات کے لیے سڑک کو کھودنا پڑے گا۔ تو اس لیے اداروں کا آپس میں تعاون ہونا ضروری ہے۔'

قیصر بنگالی نے کہا جب تک شہر میں موجود تمام ادارے آپس میں مل جل کر کام نہیں کرتے، وفاقی ادارے اپنے علاقوں میں بنیادی خدمات کرنے کا اختیار صوبائی حکومتوں کو نہیں دیتے اور صوبائی قوانین پر عمل درآمد نہیں کرتے، تب تک کراچی کے مسائل حل نہیں ہوسکتے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تحقیق