پاکستان تحریک انصاف کی وفاقی کابینہ نے ٹیکس چوروں سے رقم واپس لینے کی ایک اور نئی ٹیکس ایمنسٹی سکیم کی منظوری دے دی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے اپنے دور کے خاتمے پر گذشتہ برس اسی قسم کی سکیم چلائی تھی۔ اب ایک نئی سکیم کی کیا ضرورت ہے؟
وفاقی حکومت کا اطلاعات کے مطابق اس سکیم کو صدارتی آرڈیننس کے ذریعے نافذ کرنے کا ارادہ ہے۔ سابق وزیر خزانہ اسد عمر نئی سکیم کے حق میں ہیں۔ وہ کہتے ہیں: ’اب لوگوں کو احساس ہوگیا ہے کہ پرانے طریقے اب نئے پاکستان میں نہیں چلیں گے۔ لیکن وہ ایک آخری موقع چاہتے ہیں اپنا حساب کتاب درست کرنے کے لیے۔ ہم ہر کسی کو جیل میں بھی نہیں ڈالنا چاہتے ہیں۔‘
لیکن حزب اختلاف حکومت کے معاشی بحالی کے پروگرام سے کوئی زیادہ مطمئن دکھائی نہیں دیتی ہے۔ پیپلز پارٹی کی نائب صدر شیری رحمان نے ٹیکس ایمسنٹی سکیم کے بارے میں کہا کہ ایک طرف تو حکومت مالی ڈسپلن کی بات کرتی ہے اور دوسری جانب ٹیکس نیٹ سے باہر رہنے کے لیے مراعات دے رہی ہے۔ ’ٹیکس نیٹ کو بڑھانے کی بجائے وہ دھن کو سفید کرنے کی پرانی سکیموں پر انحصار کر رہے ہیں جو امروں کو انعام دیتا ہے اور غریبوں کو سزا دیتا ہے۔‘
سوال یہ بھی اٹھایا جا رہا ہے کہ کیا وہ پھر باقاعدگی سے ٹیکس دینے والوں کو بھی کوئی مرعات دیں گے؟ موجودہ ٹیکس دہندگان کو کوئی چھوٹ دیئے بغیر سکیم ان کے منہ پر بقول خود سابق وزیر خزانہ ’چپیڑ‘ ہوگی۔
کیا نئی سکیم کارآمد ثابت ہوگی؟
کامیاب ٹیکس سکیم کیسی ہونی چاہیے اس بارے میں کوئی سو فیصد درست نسخہ آج تک دریافت نہیں کیا جاسکا ہے۔ اور چونکہ کسی ایک نسخے پر اتفاق رائے بھی نہیں، چند پہلو ایسے ضرور ہیں جو کئی ٹیکس ایمنسٹی سے متعلق کی جانے والی تحقیق میں سامنے آئے ہیں۔
پہلی تو سکیم کی نوعیت سے متعلق ہی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کی 2018 کی سکیم سے موجودہ مجوزہ سکیم ماہرین کے مطابق بظاہر زیادہ جامع ہے۔ مثال کے طور پر یہ بےنامی اثاثوں اور سیلز ٹیکس اور فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کی مد میں غیراعلانیہ سیلز/پروڈکشن کا احاطہ بھی کرتی ہے۔
اس میں ایک اور شرط اپنے بینک کھاتے (روپے یا فارن کرنسی کے) میں کیش ڈیکلریشن جمع کرانے بھی شامل ہے۔ اس کے علاوہ غیرملکی اثاثے ظاہر کرنا بھی لازمی قرار دیا گیا ہے۔ بینک کھاتوں میں گذشتہ پانچ سالوں کے دوران کریڈٹ انٹریز بھی جائزے کے لیے بتائی جانی ہوں گی، جہاں کہ 2018 کی سکیم میں محض کلوزنگ بینک بیلینس ہی ظاہر کرنے کی شرط تھی۔
ماہرین کے مطابق نئی مجوزہ سکیم پچھلی سکیم سے بہتر ہے کیونکہ یہ زیادہ بہتر منظم ہے اور یہ پیسوں کو مرکزی دھارے میں لاتی تو ہے مگر زیادہ تفصیل بھی مانگ رہی ہے جیسے کہ گذشتہ پانچ سالوں کی کریڈ تفصیل۔
کمزوریاں کیا ہیں؟
اس سکیم میں چند کمزوریاں بھی دیکھی گئی ہیں۔ مثال کے طور پر پلاٹوں اور فلیٹس کی ویلویشن قیمت یا ایف بی آر کے ریٹ، یعنی ان میں سے جو زیادہ ہوگا‘ اس پر ہوگی۔ اس سے اس معیشت کے حصے کو دستاویزی شکل دینا مشکل ہوسکتا ہے کیونکہ ایف بی آر کے نرخ اصل مارکیٹ ریٹ سے بہت کم ہیں۔ اس سکیم کے تحت ریل اسٹیٹ کی ویلوایشن مارکیٹ ریٹ کے قریب ہونی چاہیے۔ تاہم اس پر لاگو ٹیکس کم ہوسکتا ہے۔ معاشی ماہرین کے مطابق اسے دستاویزی شکل درست مالیت میں دی جانی چاہیے۔
کسی بھی سکیم میں ایک اور اہم پہلو اسے کامیاب بنانے کے لیے حیرت کرنے اور اسے خفیہ رکھنے کا ہوتا ہے۔ اگر ٹیکس چوروں کو پہلے سے سکیم کی نوعیت اور تاریخوں کے بارے میں معلوم ہو جائے تو انہیں وقت مل جاتا ہے کہ وہ اپنے فائدہ کا کاونٹر منصوبہ تیار کر لیتے ہیں۔ اس نئی سکیم کے بارے میں تو اتنا چرچا ہوچکا ہے اور مسودہ کی کاپی بھی ویٹس ایپ ہوچکی ہے کہ اب ایف بی آر اور وزارت خزانہ پر مفادی ٹولوں کا دباؤ جلد آنا شروع ہو جائے گا۔
ایمنسٹی کی مدت
کامیابی کی تیسری کنجی ایمنسٹی سکیم کی مدت ہے۔ تحقیقی مقالے کہتے ہیں کہ یہ مدت نہ تو اتنی قلیل یعنی دو تین ماہ ہو اور نہ ہی بنگلہ دیش کی طرز کی دو سال پر محیط ہو۔ ایک اچھا عرصہ لگ بھگ نو ماہ کا مانا جاتا ہے، جیسا کہ انڈونیشیا میں 2016 اور 2017 کے درمیان تھی جس میں 350 ارب ڈالرز اکٹھے ہوئے۔ اس کے برعکس امکان ہے کہ پاکستان میں نئی سکیم کا اعلان 15 اپریل 2019 تک کر دیا جائے گا جو جون تک ہوگی۔
ماہرین کے مطابق اگر وہ بڑی تعداد میں لوگوں کو آگے آنے پر مجبور کرنا چاہتے ہیں تو یہ مناسب مدت ہرگز نہیں ہے۔ 2018 میں 82 ہزار آٹھ سو 89 افراد نے اثاثے ظاہر کئے۔ حکومت کو اس سکیم پر عمل درآمد کروانے میں مشکلات رہیں گی۔
مالی تبدیلی کی نوعیت
تدریسی تحقیق کہتی ہے کہ ٹیکس ایمنسٹی سکیمیں صرف اس صورت میں کامیاب ہوتی ہیں اگر وہ ’معاشی بہتری، ٹیکنالوجی میں ترقی اور کاروباری ماحول میں تبدیلی‘ کے ساتھ آئے۔ جب لوگ محسوس کریں گے کہ وہ نئی اقتصادی حالات سے باہر رہ جائیں گے تو وہ اپنے آپ کو باضابطہ بنانے میں جلدی کریں گے۔
تحریک انصاف نے معاشی معملات درست کرنے اور بہتری لانے کے وعدے تو کیے ہیں لیکن لوگوں کو اس پر ابھی مکمل اعتماد کرنا اسی صورت میں ہوگا جب وہ حقیقی تبدیلی دیکھیں گے۔
ایف بی آر اصلاحات
ماہرین کہتے ہیں کہ وفاقی بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) میں اصلاحات کے بغیر ایمنسٹی متعارف کروانا ایسا ہی ہے جیسے کہ گھوڑے کو ٹانگے کے پیچھے باندھ دینا۔ سابق وزیر خزانہ اسد عمر نے بھی اس کا اعتراف کیا ہے کہ ’سکیم اس وقت تک کامیاب نہیں ہوسکتی جب تک ٹیکس چوروں کو یقین ہوکہ اس کے خاتمے کے بعد بچنا ممکن نہ ہوگا۔‘ ان کا کہنا تھا کہ بےنامی قانون کے نفاذ، بیرون ملک بینک کھاتوں کی بہتر معلومات اور ایف بی آر کی صلاحیت بہتر بنانے سے افاقہ ضرور ہوگا۔
ٹیکس ایمنسٹی سکیم اس وقت مفید ثابت ہوگی اگر ایف بی آر اینالیٹکس، آڈٹ اور دیگر صلاحیتوں کا عوامی سطح پر مظاہرہ کریں۔ ایف بی آر کا صارفین کے ساتھ دوستانہ رویہ بھی ضروری ہوگا۔ اس جانب ایک پیش رفت ایف بی آر شبر زیدی کی صورت میں نئے چیرمین کی تعیناتی کے طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔ انہوں نے آتے ہی ٹیکس دہندگان کے خلاف کارروائی کو افسروں کے لیے مزید مشکل بنا دیا ہے۔