گینگ ریپ پر احتجاج حکومت گرانے کی بین الااقوامی سازش: بھارتی حکام

بھارتی حکومت نے اتر پردیش کے گاؤں ہاتھرس میں 19 سالہ لڑکی سے گینگ ریپ کے معاملے میں اقوام متحدہ کے کردار کو مسترد کرتے ہوئے اسے ’غیر ضروری‘ قرار دیا ہے۔

ہاتھرس گاؤں میں ایک 19 سالہ لڑکی  کے گینگ ریپ اور ہلاکت کے واقعے  کے خلاف احتجاج کے دوران  ریاست اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی ادتیہ ناتھ  کے پوسٹرز جلا رہے ہیں (تصویر: اے ایف پی)

بھارت میں ایک نوجوان خاتون کے مبینہ گینگ ریپ کا ہولناک واقعہ قومی اور بین الاقوامی سطح پر توجہ حاصل کر چکا ہے اور اس پر بھارتی سپریم کورٹ سے لے کر اقوام متحدہ تک کی جانب سے تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔

اونچی ذات سے تعلق رکھنے والے چار افراد کو ریاست اتر پردیش کے ہاتھرس گاؤں میں ایک 19 سالہ لڑکی کی ہلاکت کے بعد گرفتار کیا گیا ہے، لیکن کیس کے حوالے سے پولیس کی ابتدائی کارکردگی اور خاتون کی آخری رسومات جلد ادا کرنے، مظاہرین پر تشدد کرنے اور حزب اختلاف کے رہنماؤں کو متاثرہ خاندان سے ملنے سے روکنے کی کوششیں کرنے پر پولیس کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

بھارت میں اقوام متحدہ کے نمائندے ریناتا ڈیسالین کا کہنا ہے کہ ’یہ کیس ظاہر کرتا ہے کہ کیسے خواتین اور لڑکیاں ایک کمزور سماجی گروہ ہیں اور وہ کس طرح صنفی بنیادوں پر ہونے والے تشدد کا نشانہ بن سکتی ہیں۔ بھارت میں موجود یو این کا عملہ خواتین اور لڑکیوں کے خلاف جنسی تشدد کے واقعات میں مسلسل اضافے پر رنجیدہ ہے۔‘

حکومت کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق صرف 2019 میں خواتین کے خلاف چار لاکھ 5000 ہزار جرائم رجسٹر کیے گئے جو کہ گذشتہ سال کے مقابلے میں سات فیصد اضافہ تھا۔ پولیس کی جانب سے رجسٹر کیے گئے ان کیسز میں 30 فیصد جنسی تشدد یا ریپ کے کیسز تھے۔

متاثرہ خاندان سے ملاقات کی کوشش کرنے والے حزب اختلاف کے رہنماؤں کی اترپردیش میں پولیس سے جھڑپیں بھی ہوتی رہیں جبکہ اس ریپ کیس پر ملک بھر کے کئی شہروں میں مظاہرے بھی کیے جاتے رہے ہیں۔

بھارتی حکومت نے اس معاملے میں اقوام متحدہ کے کردار کو مسترد کرتے ہوئے اسے ’غیر ضروری‘ قرار دیا ہے۔

حکومتی ترجمان انوراگ شری واستوا نے انڈین ایکسریس کو بتایا کہ ’بھارت میں اقوام متحدہ کی ریزیڈنٹ کوآرڈی نیٹر کو معلوم ہونا چاہیے کہ بھارتی حکومت ان کیسز کو بہت سنجیدگی سے لے رہی ہے۔‘

ان کا مزید کہنا ہے کہ ’ابھی تحقیقات جاری ہیں اس لیے کسی غیر ملکی ایجنسی کی جانب سے ایسے غیر ضروری بیانات سے گریز کرنا چاہیے۔‘

ہاتھرس میں ہونے والا یہ واقعہ 14 ستمبر کو پیش آیا جب متاثرہ لڑکی کی والدہ نے انہیں گاؤں کے قریب موجود کھیتوں میں برہنہ حالت میں پایا۔ متاثرہ خاتون کو دہلی کے ہسپتال منتقل کیا گیا جہاں وہ 29 ستمبر کو زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسیں۔

اس واقعے کے بعد مظاہرین کی جانب سے کیے جانے والے مظاہروں میں انصاف کے مطالبے کے ساتھ مرکزی اور ریاستی حکومت کو بھی نچلی ذات سے تعلق رکھنے والے افراد کی حفاظت نہ کرنے پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ دونوں جگہ وزیر اعظم نریندرا مودی کی ہندو قوم پرست جماعت کی حکومت ہے۔

منگل کو بھارتی سپریم کورٹ کی جانب سے اس واقعے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اسے ’چونکا دینے والا‘ اور ’ہولناک‘ قرار دیا گیا۔

چیف جسٹس شردھ ارویند بوبدے کی سربراہی میں بینچ نے اس گینگ ریپ اور قتل کی تحقیقات کی نگرانی کرنے کا وعدہ کیا اور اترپردیش حکومت کو حکم دیا کہ وہ گواہوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے کیے جانے والے اقدامات کی تفصیلات فراہم کرے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

لیکن اس کے باوجود اترپردیش حکام کی جانب سے مظاہرین کے خلاف سخت اقدامات کیے جا رہے ہیں اور سوموار کو 21 مظاہرین کے خلاف ابتدائی مقدمہ پیش کر دیا گیا۔ حکام کے مطابق ان افراد نے ’نسلی اور قوم پرستی پر مبنی فسادات اور ریاستی حکومت کی ساکھ کو مجروح کرنے کی کوشش کی تھی۔‘ ان افراد کے خلاف مقدمے میں سامراجی دور کے ’بغاوت‘ کے الزامات کو بھی شامل کیا گیا ہے۔

ریاست اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی ادتیہ ناتھ نے مبینہ گینگ ریپ کے بعد پیدا ہونے والے حالات کی ذمہ داری ’فسادیوں‘ پر عائد کرتے ہوئے اسے ایک ’بین الااقوامی سازش‘ قرار دیا ہے۔

ریاستی حکام کا کہنا ہے کہ وہ ایک ویب سائٹ جسٹس فار ہاتھرس وکٹم ڈاٹ کارڈ ڈاٹ سی او کی تحقیقات کر رہے ہیں، جہاں پر مظاہروں سے قبل ان کے بارے میں معلومات فراہم کی جا رہی تھی۔

نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ایک سرکاری عہدیدار نے بھارتی اخبار ہندوستان ٹائمز کو بتایا کہ اس ویب سائٹ کے پیچھے ’بیرونی ممالک سے تعلق رکھنے والے افراد ملوث ہیں۔‘

سوموار کو اپنی جماعت کے کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے یوگی ادتیہ ناتھ نے حزب اختلاف کے رہنماؤں پر بھی تنقید کی جن میں کانگریس سے تعلق رکھنے والے راہول اور پریانکا گاندھی بھی شامل تھے جو متاثرہ خاندان سے ملنے اترپردیش پہنچے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارے مخالفین ہمارے خلاف سازش کر رہے ہیں اور بیرونی فنڈنگ کے ذریعے نسلی اور قوم پرستی پر مبنی فسادات بھڑکانا چاہتے ہیں۔ گذشتہ ایک ہفتے سے اپوزیشن جماعتیں فسادات کی کوشش کر رہی ہیں۔ ہمیں ان تمام سازشوں کے باوجود آگے بڑھنا ہو گا۔‘

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا