پینشن کی رقم سے امام بارگاہ تعمیرکروائی: ذاکر روی شنکر  

ہندو مت سے تعلق رکھنے والے روی شنکر کے مطابق ’لوگ مجھے مجلس پڑھنے کے لیے جب بُلاتے ہیں تو پوچھتے ہیں کہ میں کتنے پیسے لوں گا تو میرا جواب ہوتا ہے کہ اگر واپسی کا کرایہ مل جائے تو  ٹھیک ورنہ میں خود کرایہ کرلوں گا۔‘

(امر گرڑو)

سندھ کے صحرائی علاقے تھرپارکر کے چھاچھرو شہر میں رہنے والے روی شنکر نے کچھ عرصہ پہلے سرکاری ملازمت سے ریٹائرمنٹ لی اور اپنی پینشن کی رقم سے امام بارگاہ تعمیر کروائی۔  

روی شنکر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’میں نے یونین کونسل سیکریٹری کے طور پر سرکاری ملازمت کی، ریٹائرمنٹ پر مجھے آٹھ لاکھ روپے ملے، جس سے میں نے چھاچھرو شہر میں امام بارگاہ تعمیر کروائی۔‘

ہندومت سے تعلق رکھنے والے روی شنکر ذاکر بھی ہیں اور وہ سندھ، پنجاب اور خیبرپختونخوا کے مختلف شہروں میں مجالس پڑھتے ہیں۔ ’لوگ مجھے مجلس پڑھنے کے لیے جب بُلاتے ہیں تو پوچھتے ہیں کہ میں کتنے پیسے لوں گا تو میرا جواب ہوتا ہے کہ اگر واپسی کا کرایہ مل جائے تو  ٹھیک ورنہ میں خود کرایہ کرلوں گا۔‘

پاکستانی ہندوؤں کی اکثریت زیریں سندھ کے اضلاع بشمول حیدرآباد، میرپورخاص، سانگھڑ، بدین، تھرپارکر اور عمرکوٹ میں آباد ہیں۔ عمرکوٹ اور تھرپارکر اضلاع میں تقریباً آدھی آبادی ہندوؤں کی ہے، جن میں کچھ ہندو خود کو حسینی ہندو کہلاتے ہیں جو نہ صرف محرم الحرام میں ماتم کرتے ہیں بلکہ اپنے گھروں پر علم بھی لگاتے ہیں۔ 

تھرپارکر اور عمرکوٹ میں کئی امام بارگاہوں کا مکمل انتظام حسینی ہندو چلاتے ہیں۔جبکہ ان اضلاع میں کئی ہندو محرم کے دوران سبیلیں بھی لگاتے ہیں۔ جب کہ تھرپارکر میں کچھ ہندوؤں نے اپنے گھروں میں سندھی شاعر شاہ عبدالطیف بھٹائی کے جد امجد  شاہ عبد الکریم بلڑی وارو کا تکیہ رکھنے کے ساتھ علم بھی رکھتے ہیں، کچھ ہندو ذوالجناح بھی رکھتے ہیں۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

 روی شنکر کے مطابق: ’کئی سال پہلے مجھے دمے کا مرض تھا، میں ایک درویش کی درگاہ پر منت مانگنے گیا، وہاں موجود امام بارگاہ میں جاکر دعا کی، تو دمے کا مرض جاتا رہا، اس دن کے بعد مجھے اماموں سے محبت ہوگئی۔ بعد میں جب میں نے تاریخ پڑھی تو میں حیران رہ گیا کہ لوگ کیوں کہتے ہیں کہ کربلا میں جنگ ہوئی تھی، وہ جنگ نہیں ایک جبر تھا، کہاں نو لاکھ کا مسلح لشکر، کہاں معصوم بچوں سمیت 72 لوگوں کا قافلہ‘۔ 

روی شنکر کے دو بیٹے مقامی بینک میں کام کرتے ہیں، ریٹائرمنٹ پر انھوں نے اپنے بیٹوں کو بتایا کہ ان کی خواہش ہے کہ وہ پینشن کی رقم سے امام بارگاہ تعمیر کروائیں۔ ’بیٹوں نے اجازت دی کہ میں جو چاہوں وہ کروں انھیں کوئی اعتراض نہیں ہے۔ میں نے نہ صرف پیشن کی رقم امام بارگاہ پر لگائی، بلکہ مجھے ہر ماہ جو بھی پیسے ملتے ہیں میں انھیں امام بارگاہ پر لگاتا ہوں، اب بھی تعمیرات کا کام جاری ہے۔‘  

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان