غدار، ایجنٹ کے ٹھپے، وضاحتیں

میں دوہری شہریت کے لوگوں کو پارلیمان کا الیکشن لڑنے کی اجازت دینے کا مخالف ہوں مگر غیر ملکی پاکستانیوں کے لیے کچھ نشستیں مخصوص کرنے کا حامی۔

کارٹون صابر نذر/انڈپینڈنٹ اردو

اکثر آپ سے کہتا ہوں کہ ہم قبائلی معاشرے میں رہتے ہیں۔ اس ذہنی روش کی ایک نشانی یہ ہے کہ قبیلے سیاسی طاقت کے لیے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ یہی وہ رویہ ہے جس کی وجہ سے سیاست دان اور ان کے حمایتی ایک دوسرے کو غدار، کافر اور کرپٹ قرار دیتے ہیں۔

کسی حد تک میں بھی اس گناہ میں شامل ہوں حالانکہ اپنے طور پر پوری کوشش کرتا ہوں کہ شخصیت سے زیاد نظریہ، پالیسی اور فیصلوں پر تنقید کی جائے۔ میں کوئی اتنا نمایاں سیاست دان نہیں ہوں، مگر جب سے ہماری نئی جمہوریہ کی تحریک اور قومی سیاسی مذاکرات کے مطالبے نے زور پکڑا ہے، میری ذات پر بھی سوشل میڈیا میں جھوٹے الزامات کی شدت میں اضافہ ہو رہا ہے۔

میں اپنی ذات کے بارے میں بات کرتے ہوئے ہچکچاتا ہوں مگر خاموشی کا مطلب اکثر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ الزامات درست ہیں۔ مجبوراً آپ کی خدمت میں حقائق پیش کرنا ضروری ہیں۔ آپ نہ پڑھنا چاہیں تو یہیں رک جائیں۔

دوہری شہریت وہ الزام ہے جو سب سے زیادہ لگتا ہے۔ اس کی دو وجوہات ہیں ایک تو یہ کہ میرے پاس پچھلے 20 سال سے کاروباری ضروریات کے لیے ایک انٹرنیشنل فون نمبر ہے جسے میں وٹس ایپ پر استعمال کرتا ہوں۔ دوسرا یہ کہ 2010 میں پاکستان امریکن چیمبر آف کامرس کا صدر رہا۔ میرے پاس کوئی دوہری شہریت نہیں۔

بہت سے ملکوں کے مختلف قسم کے ویزے ضرور ہیں مگر شہریت صرف اور صرف پاکستانی ہے۔ یہی وجہ ہے 2013 اور 2018 میں میری کاغذات نامزدگی منظور ہوئے۔ جب میں چیمبر کا صدر تھا تو سینیٹ کے نائب چیئرمین سلیم مانڈوی والا بی او آئی کے چیئرمین تھے اور مجید عزیز کراچی چیمبر کے صدر۔

یہ دونوں گواہی دے سکتے ہیں کہ میں نے پاکستان میں سرمایہ کاری اور تجارت کے فروغ کی بھرپور کوشش کی۔ آج تک پاکستان سے ایک ڈالر بھی باہر نہیں لے گئے بلکہ ہمیشہ پاکستان میں نہ صرف زرمبادلہ بھجوایا بلکہ نوکریاں بھی پیدا کیں۔

میں دوہری شہریت کے لوگوں کو پارلیمان کا الیکشن لڑنے کی اجازت دینے کا بھی مخالف ہوں مگر غیر ملکی پاکستانیوں کے لیے کچھ نشستیں مخصوص کرنے کا حامی ہوں جیسے اقلیتوں اور خواتین کی مخصوص نشستیں ہیں۔

اسی الزام سے جڑا ایک الزام یہ ہے کہ امریکن ایجنٹ ہوں، یعنی امریکہ یہ چاہتا ہے کہ موجودہ جمہوریہ ناکام ہو جائے اور میں ان کے ایجنٹ کا کام کر رہا ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر چاہوں تو امریکہ کی کسی بھی اہم شخصیت سے مل سکتا ہوں، مگر چونکہ پاکستانی سیاست میں حصہ لیتا ہوں اس لیے کسی بھی اہم شخص سے انفرادی ملاقات سے گریز کرتا ہوں تاکہ کسی قسم کے شکوک و شبہات پیدا نہ ہوں۔

ناصرف یہ بلکہ امریکہ جب بھی ایسی پالیسی اپناتا ہے جو پاکستان اور مسلمانوں کے مفاد کے خلاف ہو تو بلاخوف و جھجک میں نے ان پر شدید تنقید کی ہے جس کے ثبوت سوشل میڈیا پر موجود ہیں۔

بہت سے دوسرے سیاست دانوں کی طرح مجھے بھی کئی دفعہ سوشل میڈیا پر غدار کا لقب مل چکا ہے۔ یہ لقب اکثر اس وقت ملتا ہے جب فوج کے فیصلوں اور سیاست میں مداخلت پر تنقید کی۔ یہ کام وہ لوگ کرتے ہیں جو اپنے آپ کو فوج کا دوست اور حمایتی قرار دیتے ہیں۔

افسوس یہ ہے کہ اس رویے سے جتنا نقصان فوج کے ادارے کو ہوا ہے کسی چیز سے نہیں ہوا۔ فوج اور ریاستی اداروں نے آج تک کسی ایک شخص کو بھی اس طرح کے جھوٹے الزامات لگانے پر سزا نہیں دی۔ جب پی ٹی آئی میں تھا تو عمران خان مجھے مسلم لیگ ن کا ایجنٹ قراد دیتے تھے یعنیٰ پارٹی کا غدار۔

فوج کا ایجنٹ۔ عجیب بات یہ ہے کہ جب فوج پر تنقید کی تو غدار ٹہرے مگر آج کل جب میں پی ڈی ایم کی سیاست، نواز شریف کے بیانات اور مسلم لیگ ن کے غلط فیصلوں پر تنقید کر رہا ہوں تو ان کے حمایتیوں نے فوج کا ایجنٹ قرار دینا شروع کر دیا ہے۔

پیپلز پارٹی کے حامیوں کا یہ خیال ہے کہ میں وہ خفیہ ایجنٹ ہوں جو اٹھارویں ترمیم کے خلاف مہم چلانے کے لیے چھوڑا گیا ہے۔ ان کا یہ بھی خیال ہے کہ میں صدارتی نظام کے لیے راہ ہموار کر رہا ہوں۔ میں ان تمام الزامات کو مسترد کرتا ہوں ان کا حقائق سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ میری اپنی سیاست ہے اور میں ڈیڑھ سال سے خود کو سمجھا رہا ہوں کہ موجودہ جمہوریہ ناکام ہو چکی ہے اور اب ایک نئی عوامی جمہوریہ کی ضرورت ہے جس کے لیے قومی سیاسی مذاکرات کا مطالبہ کیا ہے۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اب تک کافر کا لقب نہیں ملا مگر آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ جب قومی سیاسی مذاکرات کی میز سجے گی تو کچھ مذہب کی ٹھیکیدار پارٹیاں بھی وہاں موجود ہوں گی۔ میری جو سیاسی نظریاتی پوزیشن ہے اس پر جب بحث ہوگی تو میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کافر بھی ٹھہرایا جاؤں گا اور شاید واجب القتل بھی۔

سوشل میڈیا پر گالیاں اور دھمکیاں اب عام ہو چکی ہیں۔ پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا انچارج ارسلان خالد اور عمران غزالی مجھے اچھی طرح جانتے ہیں۔ ان دونوں کا دعویٰ ہے کہ ان کے لیڈر اس رویے کے حامی نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ عمران خان اس رویے کو پسند کرتے ہیں بلکہ اسے کارآمد بھی سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے آج تک انہوں نے کسی کے خلاف کارروائی نہیں کی۔

دھمکیوں کو میں سنجیدگی سے لیتا ہوں اور کوشش کرتا ہوں کہ اپنی اور اپنے دوستوں کی زندگیوں کو خطرے میں نہ ڈالوں مگر صرف خدا ہی ہے جو حفاظت کا ضامن ہے اور اسی پر مجھے یقین ہے۔ حکومت اور اداروں کو یہ سمجھنا چاہیے کے دھمکیوں، گالیوں اور سینسر سے آوازیں دبائی نہیں جا سکتیں۔

میں نے آج تک کسی گالی یا دھمکی دینے والے کو نہ بلاک کیا نہ سوشل میڈیا پر ان کا پیغام ڈیلیٹ کیا اور نہ ان کے خلاف شکایت درج کرائی اس لیے کہ مجھے ریاستی اداروں پر کوئی بھروسہ ہی نہیں ہے کہ وہ عوام کے مفاد میں کام کرتے ہیں۔  

آپ کا شکریہ کے آپ نے تحمل سے بات سنی۔ امید ہے یہ وضاحتیں صرف ایک ایک ہی مرتبہ دینی پڑیں گی۔ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ