سیلف میڈ کوئی نہیں ہوتا، قسمت ہے بس!

ہر سیلف میڈ کی اپنی ایک کہانی ہوتی ہے۔ اس کہانی میں کہیں جھول نہیں ہوتا۔ کچھ ایسا ہوتا تو وہ یہاں تک پہنچ پاتا جہاں وہ اب ہے؟ یہی جھول قسمت کہلاتا ہے۔

pixabay

حاجی صاحب نے کس کےسوٹا لگایا اور کہنے لگے 'الحمدللہ جی میں ایک سیلف میڈ انسان ہوں۔ اس وقت میری تین کوٹھیاں ہیں، ایک فارم ہاؤس ہے، گھر میں چار گاڑیاں ہیں، بچے امریکن سکول میں پڑھتے ہیں لیکن آپ کو پتہ ہے میں نے یہ سکریچ سے شروع کیا تھا؟ بالکل زیرو۔'
'مجھے یاد ہے ہمارے گھر میں جب کوئی سالن نہیں ہوتا تھا تو سب لوگ پیاز سے روٹی کھا لیتے تھے، وہ نہیں ملا تو اچار اٹھا لیا، جب کچھ بھی نہیں ملتا تھا تو جی پانی سے روٹی نگل لیتے تھے۔ بڑے ٹف دن دیکھے ہیں۔ ہمارے اباجی کے پاس ایک سائیکل ہوتی تھی، وہ کام پہ جاتے تو بیس میل دور اسی پہ جایا کرتے تھے۔ سب چھوڑیں میرا سکول جو ہے، وہ دو گاؤں پرے تھا، صبح تڑکے ایک گھنٹہ پہلے میں نکلتا تھا، یہ کہرا جما ہوا، بھاگ بھاگ کے سکول پہنچتا تھا، واپسی پہ جب گرمیاں ہوتی تھیں تو جوتوں میں سوراخ ہو جاتے تھے گرم راستے پہ چل چل کر، مجال ہے کبھی ماں باپ سے ضد کی ہو، پتہ ہوتا تھا کہ عید پہ اگر ابا کے پاس کچھ پیسے بچ گئے تو دلا دیں گے۔'
'پھر جی میں نے ٹھان لی کہ بس محنت کرنی ہے اور بڑا آدمی بننا ہے۔ سکول سے فارغ ہو کے میں ابا جی کی سائیکل اٹھاتا، سارے گاؤں کی دکانوں سے گتہ کاغذ اکٹھا کرتا، گھر لاتا اور اتوار کے دن سارا سامان شہر بیچ آتا۔ پھر آہستہ آہستہ گاؤں میں اپنا گودام بنا لیا میں نے، شہر سے لوگ خود اپنے ٹرک بھیجنے لگے میرے پاس، پھر میں نے آس پاس کے سارے چک سنبھال لیے۔ گتے کاغذ سے جی بڑا کمایا میں نے، ان پیسوں سے پولٹری فارم بنا لیا، مالک نے بڑی برکت ڈالی اس میں، بس پھر ایک سے دو، دو سے چار، چار سے آٹھ فارم ہو گئے، پھر میں نے زرعی رقبہ لینا شروع کر دیا جی، بس اس کے بعد مالک نے جیسے ہاتھ پکڑ لیا ہو بھائی جی۔ راکھ حاجی صاحب کے ایش ٹرے سے باہر باہر ہی جمع ہو رہی تھی۔'
'نئی حکومت نے سڑک منظور کی ادھر اپنے رقبے کے پاس، لو جی کالونیاں کٹنا شروع ہو گئیں، زرعی میرا سارا رقبہ سکنی ہو گیا ہے جی اللہ کے فضل سے، یہ جو کالونیاں کٹی ہیں ان کے بیچ میں اب بھی جگہ رکھی ہوئی ہے میں نے، کروڑوں کا ایک پلاٹ ہے، بڑا کرم ہے، بڑا شکرہے، آپ دیکھ لیں، زیرو سے کیا تھا شروع، بس جی بندہ محنت کرے تو پھل ضرور ملتا ہے۔ بچوں کو بھی سمجھاتا ہوں سیلف میڈ بنو، اپنے پیروں پہ کھڑے ہو۔ سگریٹ بجھا کے حاجی صاحب خود بھی کھڑے ہو گئے۔'
ہر سیلف میڈ کی اپنی ایک کہانی ہوتی ہے۔ اس کہانی میں کہیں جھول نہیں ہوتا۔ کچھ ایسا ہوتا تو وہ یہاں تک پہنچ پاتا جہاں وہ اب ہے؟ یہی جھول قسمت کہلاتا ہے۔
سوچیں جس وقت حاجی صاحب نے ابا جی کی سائیکل اٹھائی تھی اور گاؤں کی دکانوں سے گتہ اکٹھا کرنا شروع کیا تھا، اگر کسی دن بارش ہوتی، وہ جا رہے ہوتے، سائیکل پھسلتی، وہ گرتے اور ان کی ٹانگ ٹوٹ جاتی، تب کیا ہوتا؟ سال ڈیڑھ تو گیا تھا سارا کاروبار کہ نہیں؟ یا وہی بارش اتنی ہو جاتی کہ ان کے گودام میں پانی بھر جاتا اور سارا بزنس تیر رہا ہوتا اس کے بیچ میں؟ کیا حاجی صاحب نقصان برداشت کر سکتے؟
اسے بھی چھوڑیں، پولٹری فارم شدید رسکی دھندا ہے۔ حاجی صاب پہلا پور ہی ڈالتے اور بیماری پھیل جاتی کوئی، ساری مرغیاں بلکہ سارے چوزے ادھر ہی رانی کھیت ہوئے پڑے ہوتے۔ کیا اس کے بعد ہمت کرنی تھی حاجی صاب نے دوبارہ مرغیوں میں انویسٹ کرنے کی؟ یا دوسری تیسری لاٹ میں بھی اگر کوئی ایسی گیم ہو جاتی، کیا کرتے وہ؟
پھر جو رقبہ لیا حاجی صاحب نے، فرض کریں یہ سڑک ہی نہ بنتی، چار پانچ سال بارش نہ ہوتی، پانی کا کوئی رولا ہو جاتا، شریکے زمین پہ قبضہ کر لیتے، حاجی صاب کورٹ کچہری میں پھنس جاتے، کیا رہ جاتا پیچھے؟ کاروبار بھی اجڑ جاتا اور اگلی ترقی بھی رک جاتی۔ یہ سب نہ ہوتا اور کوئی ڈاڈھی قسم کی سوسائٹی کا دل آ جاتا ان کے رقبے پر، تب کیا ہوتا؟
نجف کی امی کہتی تھیں کہ بیٹا قسمت خراب ہو تو اونٹ پہ چڑھے بندے کو بھی کتا کاٹ لیتا ہے۔ حاجی صاحب کی اچھی قسمت تھی، سکون سے نکل گئے۔ کہیں بھی کتے نے کاٹا ہوتا تو وہ آج سیلف میڈ نہ ہوتے بلکہ اپنی کہانی بھی نہ سنا رہے ہوتے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یہ جو سارا کھیل ہے، یہ قسمت کا ہے۔ آپ نے کہاں پیدا ہونا ہے، کس رنگ کا ہونا ہے، کس مذہب سے ہونا ہے، کیا قد ہونا ہے آپ کا، مالی حالات کیسے ہونے ہیں، کامیاب کب ہونا ہے، ہارنا کب ہے، حادثہ کب ہونا ہے، مرنا کب ہے، سبھی کچھ آپ کے اختیار میں نہیں ہے۔ جیسے برتھ کوآڈینیٹس آپ خود طے نہیں کرتے اسی طرح باقی زندگی بھی چلاتی ہے آپ کو بس، آپ سمجھتے ہیں کہ خود آپ چل رہے ہیں۔
اگر خواہش سے کوئی کامیاب ہو سکتا تو جاوید میانداد آج ملک کے وزیر اعظم ہوتے۔ نیت سے کوئی عہدہ ملتا تو مفتی عبدالقوی صدر لگے ہوتے۔ کوشش سے کوئی جیت سکتا تو اپنے ٹرمپ نے کم زور لگایا تھا؟ ایسا نہیں ہوتا۔ چیزیں اپنے ٹریک پہ چل رہی ہوتی ہیں، کبھی تکا لگ گیا تو موج ہو گئی ورنہ ساری زندگی ٹرک کی بتی۔۔۔
تو میرا خیال ہے کہ یہ سیلف میڈ والا جو کیس ہے یہ اس وقت تک ٹھیک ہے جب تک راستے میں کوئی مصیبت نہ آئے، خدانخواستہ بڑی آفت نہ ہو، ایسا کچھ ہو جائے تو نہ سیلف رہتی ہے اور نہ کوئی میڈ بچتا ہے۔ اس وقت ہمارے آس پاس لاکھوں ایسے لوگ بکھرے پڑے ہیں جن کے پاس سنانے کے لیے کروڑوں کہانیاں ہیں۔ وہ سب کچھ آپ تک اس لیے نہیں پہنچ سکتا چونکہ وہ سیلف میڈ نہیں بن سکے، انہیں راستے میں ہی کہیں روک دیا گیا۔ کسی کو بارش لے ڈوبی، کوئی آگ سے جل گیا، کسی کو حادثہ ہو گیا، کوئی ساری عمر ہمت ہی جمع کرتا رہا اور کوئی اپنی طرف سے اونٹ پہ بیٹھا تھا لیکن کتا پھر بھی کاٹ گیا۔
آپ کسی تجربہ گاہ میں ایک چوہے کو چھوڑ دیں، دو پھندے لگائیں، ایک میں پنیر ہو اور دوسرے میں روٹی اٹکی ہو، تیسری طرف ایک چھوٹا سا ٹکڑا بغیر کڑکی بھی رکھ دیں کھانے کے لیے، دیکھیں ذرا پھر وہ کتنا سیلف میڈ نکلتا ہے۔ تیسرے ٹکڑے پہ اگر آیا تو بھی وہ ایک کنٹرولڈ ماحول میں ہو گا، اور آپ جس نے یہ تجربہ کرنا ہے، آپ خود بھی کسی بڑی تجربہ گاہ کا حصہ ہوں گے۔۔۔ تو سب کچھ بس یہی ہے باس۔

باقی رہ گئے حاجی صاحب، تو ان کی سگریٹ مکنے سے پہلے اگر ان کی کہانی اٹھا کے میں آپ کے سامنے بطور سکسیس سٹوری رکھ دیتا تو ایسی دو چار کہانیوں کے بعد میرے سیلف میڈ ہونے کا بھی فیوچر برائٹ تھا! 
 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ