بلاول نے بات کر ہی ڈالی

نواز شریف حکومت نے 2015 میں اپنے لیے فوج سے اختلاف کی ایک حد مقرر کی تھی۔ آخر حکومت چلانے والے جانتے تھے کہ حقیقت پسندانہ رویے سے ہی بات آگے چل سکتی ہے۔

(اے ایف پی)

بلاول بھٹو نے اپنے ایک حالیہ بی بی سی کو دیئے گئے انٹرویو میں کوئی بات  حقائق سے ہٹ کر نہیں کی اور نہ ہی پہلی مرتبہ کہی ہے۔ البتہ اپنے کچھ خیالات تفصیل سے ضرور بیان کیے ہیں۔ وہ خیالات جن کا ذکر وہ اپنی کراچی  اور کوئٹہ کی تقاریر میں اور ثمر عباس کے انٹرویو میں کر چکے ہیں۔

آخر بلاول نے کہا کیا ہے؟ یہ کچھ اہم قابل غور نکات ہیں۔ پی ڈی ایم نے طے کیا تھا کہ کسی ادارے یا کسی شخص کا نام نہیں لیں گے، اگر میاں نواز شریف نے نام لیے ہیں تو ان کے پاس ثبوت ضرور ہوں گے جو انہیں سامنے لانے چاہیں، جنرل قمر جاوید باجوہ اور جنرل فیض کے نام لیے گئے ہیں، ریاستی اداروں کو اپنا آئین کے مطابق کردار ادا کرنا چاہیے اور کسی کو اداروں کو متنازع نہیں بنانا چاہیے، پی ڈی ایم نے کسی ادارے کے سربراہ کا استعفی نہیں مانگا اور آخر میں ایک جوابانہ انداز میں سوال اٹھایا کہ کیا اس مشکل وقت میں جس سے ملک دوچار ہے کیا ہم ایک انتہا پسندانہ رویہ اپنائیں یا  رک کر سوچیں کہ کس رخ آگے بڑھیں۔

یہ اہم باتیں کیوں ہیں؟ یقینا سنسنی خیز تو نہیں ہیں۔ بلاول پی ڈی ایم کے معاہدے پر برقرار ہیں اور مستقبل میں بھی اجتماعی فیصلوں کے ساتھ چلنے کی وضاحت بھی کر دی ہے۔

اہم اس لیے کیونکہ بلاول نے سب سے بڑے موجودہ سیاسی مسئلے کا حل دے دیا ہے۔ آخر ان جلسوں سے آگے کہاں جانا ہے، کس سے بات کرنی ہے؟ جھگڑے کے سفر رکے گا کہاں آخر؟ ن لیگ کے رہنما مذاکرات کی بات کرتے ہیں پر سب سے جنگ لڑ کے کیا یہ ممکن ہے؟

میاں نواز شریف لندن میں مقیم پاکستان میں مثالی جمہوریت کے متمنی دکھائی دیتے ہیں۔ جب پاور گیم کے سب کھلاڑیوں کا ماضی داغ دار رہا ہو تو پھر بہتری کی جستجو میں سمجھ بوجھ اور صبر کی ضرورت ہوتی ہے۔

پیپلز پارٹی کا ہدف اس وقت یہ ہے کہ اس حد تک سیاسی دباو پیدا کیا جائے جہاں بات چیت کے راستے کھلیں اور مذاکرات شروع ہوں۔ پیپلز پارٹی کی سیاست لمبی اننگز کی سیاست ہے اور ماضی میں بھی رہی ہے۔

آصف علی زرداری نے جون 2015 میں جب رینجرز کے ایکشن جس کے نتیجے میں سابق صدر کے ذاتی سٹاف اور کے سی بی اے کے لوگ حراست میں لیا گیا تھا غصہ فوج کے خلاف تھا لیکن وزیر اعظم نواز شریف سے بھی بہت نالاں تھے۔ جب رینجرز کی کارروائی سے گھبرا کر نواز شریف نے زرداری صاحب کے ساتھ کھانے پر ملاقات منسوخ کی تو پی پی پی کے کیمپ میں بہت قیاس آرائیاں بھی ہویں۔ ن لیگ نے چارٹر آف ڈیموکریسی کی خلاف ورزی کی تھی۔ سابق صدر بول اٹھے کے ن لیگ کی حکومت پی پی پی کی وجہ سے اقتدار میں ہے۔ اگر پی ٹی آئی کے دھرنے کے دوران پی پی پی ساتھ نہ دیتی تو ن لیگ کا گھر جانا لازمی تھا۔ یعنی شاید نواز شریف ہی ذاتی طور پر احسان فراموش تھے۔

ن لیگ کی طرف سے بات آگے بھی بڑھی۔ اس وقت کے وزیر داخلہ چوہدری نثار نے شکایت کی تھی کہ جب ملک کی فوج دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مصروف تھی تو پی پی پی کی طرف سے فوج پر تنقید قوم اور فوج کے درمیان فاصلہ پیدا کر رہی ہے۔ انہوں نے پی پی پی پر دہشت گردوں کی طرف داری کا الزام بھی لگایا تھا۔ نواز حکومت کے فوج کے ساتھ تعلقات تقریباً ٹھیک تھے۔ فوجی آپریشن معیشت کی بہتری کے لیے اور اندرونی سلامتی کے لیے ضروری تھے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کچھ مسائل بھی تھے مثلاً جنرل پرویز مشرف کے خلاف عدالتی کارروائی، دہشت گردی کے خلاف آپریشن اور بھارت کے ساتھ تعلقات پر۔ ان معملات پر حکومت میں دو آرا تھیں۔ دو دھڑے تھے۔ ایک نواز اور دوسرا نثار دھڑا۔ نواز کے ان تمام مسائل پر فوج کی پوزیشن سے اختلاف رائے ضرور تھا لیکن نثار کی رائے پر چاہے بادل ناخواستہ کسی حد تک عمل کر کے حکومتی معملات چلائے جا رہے تھے۔ سیاسی جماعتوں خاص طور پر پی پی پی جو کہ پی ٹی آئی کے خلاف حکومت کی حمایت کر رہی تھی حکومت کے لیے ان کو کراچی آپریشن کے دوران سپورٹ کرنا ممکن نہیں تھا۔ یہ حکومت میں ہونے کی مجبوریوں میں سے ایک مجبوری تو شاید کم تھی لیکن کراچی کے نہایت بگڑتے ہوئے حالات اور گورننس کا بحران زیادہ تھا۔

نواز شریف حکومت نے 2015 میں اپنے لیے فوج سے اختلاف کی ایک حد مقرر کی تھی۔ آخر حکومت چلانے والے جانتے تھے کہ حقیقت پسندانہ رویے سے ہی بات آگے چل سکتی ہے۔ ہر ایک کو ساتھ لے کر چلنا ہے۔۔۔سیاسی اپوزیشن کو فوج کو اور صنعت کاروں کو خاص طور پر اصلاحات کے کام میں سب سے اہم کردار منتخب شدہ  حکومت کا، پارلیمان کا ہے۔ فوج کو ساتھ رکھنا آئین کے مطابق اور اس کو اصلاحات میں شراکت کاری دینا ہی ایک حقیقت پسندانہ طریقہ ہے۔

پاکستانی عوام اور تاریخ دونوں ہر جھگڑے اور ٹکراو پر مبنی تبدیلی اور ریفارم کے عمل کے نقصان دے نتیجے کے عینی شاہد ہیں۔ اسی طرح جیسے بندوق کے زور پر حکمرانی کے معاشرے پر تباہ کن نتائج ہوتے ہیں۔ کون سا دور ان مسائل سے عاری رہا؟ ضیا دور؟ نواز؟ بےنظیر؟ مشرف؟ کوئی بھی نہیں۔

 آج پانچ سال کے بعد حالات نے ایک دلچسپ موڑ لیا ہے جب تمام اپوزیشن ایک مقصد یعنی نئے الیکشن کی ڈیمانڈ کر رہی ہے اور ملک کی سب سے بڑی اپوزیشن پارٹی کو جس نے ایک فوجی پارٹی کی حیثیت سے جنم لیا تھا، آج ایک عوامی پارٹی سمجھا رہی ہے کہ سیاسی انتہا پسندی کسی عمل میں کام نہیں آئے گی، صرف موجودہ بگاڑ کو مزید بڑھائے گی۔

ملک میں حالات بات چیت کے پیدا کریں جنگ اور دنگل کے نہیں۔

یہ بات کسی دن وزیر اعظم بھی سمجھ جائیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ