ایکٹیوزم کے 16 دن: پاکستانی عورت قائدانہ کردار سے دور

جہاں ہم مردوں کے امتیازی رویے سے نالاں ہیں وہاں پر آج کی عورت سے بھی یہ سوال ہونا چاہیے کہ تم کب تک اپنے بنیادی حقوق کے لیے دوسروں کے سامنے درخواست گزار رہو گی؟ آج کی عورت کو کمزور، مظلوم اور صنف نازک کے لیبلز اتار پھینکنے ہوں گے۔

پاکستان میں عورت کی سماجی اور مجموعی حیثیت تب تک کمزور رہے گی جب تک اسے اپنی قابلیت اور اہلیت کو بروئے کارلانےکے لیے قائدانہ کردار کے مساوی مواقع نہیں ملیں گے۔(اے ایف پی)

ہم سب کے علم میں ہے کہ ہر سال 25 نومبر سے 10 دسمبر تک پوری دنیا میں سکسٹین ڈیز آف ایکٹیوزم کے نام سے ایک تحریک چلائی جاتی ہے جس کا بنیادی مقصد خواتین کے مسائل اور حقوق سے آگہی اور بحالی کے حوالے سے اقدامات اور ترجیحات کو اجاگر کرنا ہوتا ہے۔

ہر سال 16 دنوں پر محیط اس مہم کے لیے ایک نعرہ بطور استعارہ مختص کیا جاتا ہے لہذا ہمیشہ کی طرح اس سال کا نعرہ ’اورنج دا ورلڈ‘ ہے۔ اورنج یعنی نارنجی رنگ کو تشدد سے پاک ایک روشن مستقبل کی علامت کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔

یہ تحریر آپ یہاں سن بھی سکتے ہیں

 

پاکستان میں بھی ہر سال کی طرح سرکاری اور غیرسرکاری سطح پر اس تحریک کا خیرمقدم کیا جاتا ہے اور اس حوالے سے مختلف سرگرمیاں منعقد کی جاتی ہیں۔ اس سال خوش آئند بات یہ ہے کہ خواتین کے ساتھ اظہار یکجہتی اور ان کی پذیرائی کے لیے ایوان صدر، قومی اسمبلی اور خیبر پختونخوا اسمبلی کی عمارتوں کو 25 نومبر کی شام نارنجی روشنیوں سے مزین کیا گیا۔

خواتین کو یہ دیکھ کر خوشی ہوئی۔ کئی نے ان عمارتوں کی تصاویر سوشل میڈیا پر شیئر کر کے اس امید کا اظہار کیا کہ جیسے ان عمارتوں کو ان کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے نارنجی کیا گیا ہے اسی طرح ان ایوانوں میں بیٹھے منتخب نمائندے ان کی زندگیوں میں روزانہ کی بنیاد پر روشنی اور ترقی لانے لیے نہ صرف موثر قوانین بنائیں گے بلکہ عملی طور پر وہ تمام تر اقدامات کریں گے جس کا وعدہ اس ملک کے آئین نے پاکستان کی ہر عورت سے کر رکھا ہے۔

آئین پاکستان کے مطابق جنس کی بنیاد پر کسی بھی شہری کے ساتھ امتیاز کی ممانعت کی گئی ہے۔ آرٹیکل 25 (3) اور 34 وہ دو اہم آرٹیکلز ہیں جو کلی طور پر خواتین کے حق میں ہیں۔ ان آرٹیکلز میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ کوئی بھی وجہ ریاست کو خواتین کے لیے خصوصی اقدامات اور تحفظ دینے سے قطعی طور نہیں روک سکتی۔

اگر دیکھا جائے تو آئین پاکستان نے صاف الفاظ میں خواتین کے لیے خصوصی اقدامات اور تحفظ دینے کے لیے ایک ٹھوس بنیاد مہیا کی ہے۔ لیکن اگر ہم عملی طور پر اس آرٹیکل کا اطلاق دیکھیں تو ہمیں بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ خواتین کی صورت حال کو بہتر بنانے اور ان کی سماجی، معاشی اور سیاسی ترقی کے لیے خاطرخواہ اقدامات کی اب بھی بہت کمی ہے۔ خواتین کے حقوق کے حوالے سے قومی اور بین الاقوامی تجزیے اور تحقیقاتی رپورٹ اٹھائیں تو آپ کو بخوبی اندازاہ ہوگا کہ پاکستان کی آدھی آبادی جو خواتین پر مشتمل ہے، کے لیے تعلیم، ہنر، روزگار، صحت جیسی بنیادی سہولیات اب بھی انتہائی غیرتسلی بخش ہیں۔

اوپر سے غیرت کے نام پر قتل، کم عمر میں شادی، جنسی ہراسانی، گھریلو تشدد کے واقعات کی تشویشناک شرح خواتین کی زندگیوں پر مزید برے اثرات مرتب کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتیں۔ موجودہ حکومت اور ماضی کی حکومتوں نے خواتین کے مسائل کے حل کے لیے کوششیں ضرور کی ہیں۔ لیکن پاکستان کی خواتین ان کوششوں پر اکتفا نہیں کرسکتیں کیونکہ ان کوششوں اور خواتین کو درپیش مسائل اور ان کی ترقی کے لیے درکار اقدامات میں اب بھی خاطر خواہ کمی ہے۔ پاکستان کی خواتین جب بھی اس کمی کو نمایاں کرنے کی کوشش کرتی ہیں تو بدلے میں ہمشہ انہیں یہ سننے کو ملتا ہے کہ یہ مائنڈسیٹ کا اشو ہے جو ختم ہونے میں وقت لے گا۔

میری سوچ کے مطابق اس مائنڈ سیٹ کو ختم کرنے کے لیے حکومتی ادراوں اور سیاسی و سماجی رہنماؤں کی رضامندی کا نہ ہونا دراصل سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ جس کا ثبوت یہ ہے کہ خواتین کی ترقی آج بھی اکثریتی سیاسی جماعتوں اور رہنماؤں کی ترجیحات میں شامل ہی نہیں ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

نعرے بازی اور جلسے جلوس میں خواتین کی برائے نام موجودگی کے حامی تو بہت ہیں لیکن جہاں اہم عہدوں کی بات ہو یا فیصلہ سازی کے عمل میں شرکت، تو وہاں خواتین کو مکمل نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ اس کی ایک مثال اس وقت ہماری صوبائی اور قومی اسمبلیاں ہیں۔ جہاں پر منتخب خواتین ممبران اچھی تعداد میں موجود ہیں لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں خواتین اراکین کو کوئی وزارت نہیں دی گئی ہے۔ پنجاب اور سندھ میں صرف دو خواتین ممبران کو وزارتیں دی گئیں ہیں۔ اس وقت گلگت بلتستان میں بھی یہی سننے میں آ رہا ہے کہ کسی خاتون ممبر کو کابنیہ میں شامل نہیں کیا گیا ہے۔

خواتین سے متعلقہ امور کی سربراہی بھی مرد ممبران کو سونپی جاتی ہے۔ کہیں کہیں ہم خواتین ناقدین کو چپ کرانے کے لیے کہہ دیا جاتا ہے کہ خواتین کو سیاسی اور حکومتی سطح پر مشیر کے عہدے عنایت کیے گئیں ہیں۔ جو کہ کوئی مدلل جواز نہیں۔ خواتین مشیر بن سکتی ہیں تو وزیر کیوں نہیں؟ 

افسوس اور گلہ ہمیں ان منتخب خواتین اراکین سے بھی ہے کہ جو خاموشی سے ہر فیصلے کو مان لیتی ہیں اور اپنے حق کے لیے آواز نہیں اٹھاتیں۔ یہ خواتین شاید اس کو سیاسی مصلحت کہیں لیکن یہ مصلحت نہیں بلکہ وہ سمجھوتہ ہے جس کو نبھاتے نبھاتے بہت ساری نامی گرامی سیاست دان خواتین آج بھی اپنی مستحکم سیاسی ساکھ نہیں بنا سکی ہیں۔ 

پاکستان میں عورت کی سماجی اور مجموعی حیثیت تب تک کمزور رہے گی جب تک اسے اپنی قابلیت اور اہلیت کو بروئے کارلانےکے لیے قائدانہ کردار کے مساوی مواقع نہیں ملیں گے۔ جب جب خواتین کو فیصلہ سازی کے عمل میں موثر شرکت نہیں دی جائے گی تب تب خواتین کے مسائل میں اضافہ ہوتا جائے گا، جہاں ترقی تو درکنار، موجودہ امتیاز کو مزید بڑھاوا ملے گا۔

 پاکستان اس وقت نت نئی مشکلات سے نبرد آزما ہے۔ ان مشکلات کے حل میں خواتین موثر طور پر اپنا کردار بخوبی ادا کرسکتی ہیں بشرطیکہ پاکستان کا ہر رہنما اور شہری پاکستانی عورت کو اپنے برابر کا انسان اور شہری سمجھتے ہوئے اس کے ترقی کے عمل میں مساوی شرکت کو ممکن بنانے میں اپنا کردار ادا کرے نہ کہ اس کے لیے رکاوٹ کا باعث بنے۔

جہاں ہم مردوں کے امتیازی رویے سے نالاں ہیں وہاں پر آج کی عورت سے بھی یہ سوال ہونا چاہیے کہ تم کب تک اپنے بنیادی حقوق کے لیے دوسروں کے سامنے درخواست گزار رہو گی؟ آج کی عورت کو کمزور، مظلوم اور صنف نازک کے لیبلز اتار پھینکنے ہوں گے۔ اپنے ساتھ ہونے والے امتیاز کے خاتمے کے لیے ہر ممکن کوشش کرنی ہوگی۔ اپنی صلاحیتوں پر اعتماد کرنا ہوگا۔ ورنہ صنف کی بنیاد پر برتا جانے والا یہ امتیاز اور بڑھتا چلا جائے گا۔۔۔ ایسے میں کسی تحریک یا مہم سے کوئی فرق نہیں پڑنے والا، چاہے وہ تحریک 16 دن کی ہو یا 16 صدیوں کی۔

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ