گل ودھ گئی اے

حکومت کے لیے جو بات سب سے زیادہ واضح ہوگئی ہے وہ یہی ہے کہ۔۔۔ گل ودھ گئی اے۔۔۔

(اے ایف پی)

اپوزیشن ایک ہفتے بعد ایک اور جلسہ کرے گی اور اس بار لاہور میں اپنی سیاسی قوت کا مظاہرہ دکھائے گی۔ ن لیگ کا روایتی گڑھ جس نے 2018 جنرل الیکشن میں عمران خان کے ساتھ چار سیٹیں پی ٹی آئی کی جھولی میں ڈال کر ن لیگ کی مضبوط سیاسی دیوار میں گہرا نقب لگایا تھا (لیکن بعد میں عمران خان والی سیٹ ضمنی انتخاب میں خواجہ سعد رفیق جیت گئے)۔

اب اڑھائی سال بعد اسی لاہور میں سیاسی ریفرنڈم ہونے جا رہا ہے۔ ن لیگ جو کہ لاہور جلسے کی میزبان ہے، اگر بڑا کراؤڈ اکھٹا کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو لازمی طور پر نہ صرف عثمان کی پنجاب حکومت بلکہ عمران کی وفاقی حکومت بھی بڑے سیاسی دباؤ کا شکار ہو جائے گی۔

اپوزیشن تحریک کے پہلے راؤنڈ کا سیمی فائنل لاہور میں کھیلا جانے والا ہے اور ایک ہفتے بعد ہونے والا جلسہ اپوزیشن کے ساتھ ساتھ حکومت کے لیے بھی بڑا اہم ہے۔ گذشتہ اڑھائی سالوں میں حکومت اور اپوزیشن دونوں ہی کمزور ہوئے۔ حکومت کارکردگی نہ دکھا سکنے اور عوام کو ریلیف نہ دے سکنے کے باعث اور اپوزیشن مقدمات سہنے گرفتاریاں بھگتنے اور سیاسی لائحہ عمل کی ٹامک ٹوئیاں مارنے کے باعث۔

اب اس عرصے کے بعد اپوزیشن تو بظاہر سنبھل گئی ہے اور یکسو ہو کر عمرانی حکومت گرانے کے درپے ہے مگر حکومت کا حال وہی ڈھاک کے تین پات برابر ہے۔ نہ مہنگائی میں کمی ہو رہی ہے، نہ لوگوں کو روزگار مل رہا ہے، جن کی لگی بندھی آمدن والی روزگار ہے وہ بھی ہاتھ سے گنوائی جا رہی ہے، کھانے پینے کی اشیا کی قیمتیں روز بروز بڑھتی ہی چلی جا رہی ہیں، آئے روز کبھی پٹرول، کبھی گیس، کبھی سی این جی، کبھی ایل این جی کی قیمت بڑھا دی جاتی ہے، اس پر ستم ظریفی کہ اب ایل این جی کا نیا سکینڈل سامنے آگیا جس میں قوم کو 200 ملین ڈالر یعنی 36 ارب روپے کا غبن برداشت کرنا پڑ گیا ہے۔

ہر ہفتے وزیراعظم وعدہ کرتے ہیں کہ اگلے ہفتے سے مہنگائی کم ہو جائے گی اور نگوڑی مہنگائی بے چارے وزیراعظم کو ناکام ثابت کرنے کے لیے اسی ہفتے آسمان سے جا لگتی ہے۔ حکومت اور انتظامیہ کو بنیادی سی بات سمجھ نہیں آرہی کہ باوجود ان اشیا کے جو ملک میں وافر موجود ہیں آخر ان کی قیمتیں کیوں مسلسل بڑھے ہی چلی جا رہی ہیں۔ آخر کیوں حکومت فوڈ مافیا پر قابو پانے میں مسلسل ناکام ہو رہی ہے۔

حد تو یہ ہے کہ ملک میں غذائی قلت کو پورا کرنے کے لیے امپورٹ کروائی جانے والی اشیا کے باوجود مہنگائی کم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔ گندم یوکرین سے درآمد کروائی جا رہی ہے مگر قیمتیں تاحال عوام کی پہنچ سے باہر، پھل سبزیاں پیاز آلو وغیرہ افغانستان سے اور ٹماٹر ایران سے درآمد کروائے جا رہے ہیں مگر مقامی مارکیٹ میں خریدنے جائیں تو پھل سبزی کو ہاتھ لگانے سے پہلے غریب کانوں کو ہاتھ لگاتا ہے۔

انتظامیہ کا مارکیٹوں پر کوئی کنٹرول نہیں اور حکومت کا انتظامیہ پر۔ نتیجہ واضح ہر طرف ایک بدحالی کی صورت حال ہے۔

حکومت کے بڑے بڑے شاطر دماغ اپنے سے بھی بڑے بڑے معاشی اعدادوشمار گنواتے ہیں اور جتاتے ہیں کہ ملک میں معیشت کس طرح بہتر سے بہترین ہو رہی ہے لیکن عوام سے زیرو کونٹیکٹ (صفر رابطہ) رکھنے والے یہ عالی دماغ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ غریب کو صرف اتنی ہی گنتی آتی ہے جتنی ایک وقت کی روٹی کی تعداد اسے کھانے کو مل جائے۔ اپوزیشن تحریک کو ناکام بنانے کا آسان اور تیر بہدف نسخہ تو حکومت کے لیے صرف یہی تھا کہ عوام کو ریلیف پہنچاتی، مہنگائی میں کمی کرتی لیکن قناعت کر لی گئی صرف صبح شام وزیروں مشیروں معاونین کی لن ترانی پر۔

بھلا باتوں سے بھی کبھی غریب کا پیٹ بھرا ہے۔۔۔

اب تو عوام کی یہ حالت ہو گئی کہ حکومتی حکومتی دعوؤں اور وعدوں سے پیٹ بھرے نہ بھرے کان ضرور پک گئے۔ اب ایک طرف اپوزیشن جلسے پورے عروج پر ہیں تو دوسری طرف دھڑا دھڑ آزاد سروے آنا شروع ہوگئے ہیں۔ ان سرووں کے مطابق بھی صورتحال حکومت کے لیے کچھ نیک شگن نظر نہیں آتی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

عوام حکومت اور اس کے وزیروں کی کارکردگی سے مطمئن نظر نہیں آتی۔ عوام اپوزیشن کے بارے میں بھلے تحفظات رکھتی ہو مگر موجودہ حالات سے نجات بھی چاہتی ہے، اب چاہے تو حکومت خود عوام کے لیے نجات دہندہ بن جائے یا یہ خلا یونہی اپوزیشن کے لیے کھلا چھوڑ دے۔ لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ ہر دوسرے تیسرے دن کسی نہ کسی چیز کی قیمت بڑھا کر حکومت ازخود اپوزیشن کی تحریک کو ایندھن اور جواز فراہم کر رہی ہے۔

 جیسے ملتان میں پکڑ دھکڑ گرفتاریوں وغیرہ سے حکومت نے از خود اپوزیشن جلسہ کامیاب کروایا ٹھیک اسی طرح آئے روز کی مہنگائی اور سکینڈلز سے حکومت از خود اپوزیشن مہم کو مہمیز لگا رہی ہے۔ دوسری طرف اپوزیشن ہے تو وہ  فرداً فرداً جنوری میں اسلام آباد تک لانگ مارچ کا اعلان تو کر ہی چکی ہے لیکن کیا واقعی اپوزیشن ایک موثر لانگ مارچ کر پائے گی اور کیا واقعی عمران خان لانگ مارچ یا دھرنے کے نتیجے میں استعفیٰ دے دیں گے؟

یہ انتہائی اہم سوال ہیں جن کا جواب لاہور جلسے کے بعد ہی ملنا ممکن ہو سکے گا۔ لیکن اگر اپوزیشن لانگ مارچ لے کر اسلام آباد تک آ جاتی ہے اور حکومت اسے داخلے کی اجازت بھی دے دیتی ہے تو کیا لانگ مارچ دھرنا بن کر بیٹھ جائے گا؟

اپوزیشن کتنے دن تک دھرنا دینا افورڈ کر سکے گی۔ جنوری میں اسلام آباد میں سردی بھی سخت ہو جاتی ہے بارشوں کا امکان بھی بڑھ جاتا ہے۔ دوسرے لانگ مارچ یا دھرنے کے شرکا کے لیے  کھانے پینے و دیگر چیزوں کا انتظام بذاتِ خود بڑا چیلنج ہے۔

مولانا فضل الرحمان کے اسلام آباد دھرنے کے لپیٹے جانے کی ایک بڑی وجہ بھی لاجسٹکس کی عدم دستیابی تھی۔ بہر حال ان سب سوالوں کے جواب لاہور جلسے کے بعد بڑی حد تک واضح ہو جائیں گے لیکن حکومت کے لیے جو بات سب سے زیادہ واضح ہوگئی ہے وہ یہی ہے کہ۔۔۔ گل ودھ گئی اے۔۔۔ حکومت کو چاہیے اب بھی ہوش کے  ناخن لے وگرنہ دیر ہو جانے میں زیادہ دیر نہیں لگے گی۔

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ