ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارم فیس بک نے بھارت میں اپنے کاروبار کے امکانات پر منفی اثرات مرتب ہونے اور عملے کو خطرے میں ڈالنے کے پیش نظر انتہا پسند گروپ پر پابندی عائد نہیں کی۔
امریکی اخبار وال سٹریٹ جرنل کے مطابق سال کے شروع میں فیس بک حکام نے قرار دیا تھا کہ بجرنگ دل گروپ بھارت بھر میں اقلیتوں کے خلاف تشدد کی حمایت کرتا ہے اور اس گروپ کے فیس بک استعمال کرنے پر پابندی لگنی چاہیے، تاہم اس کے بعد فیس بک کی جانچ پڑتال کرنے والی ٹیم کی رپورٹ میں خبردار کیا گیا تھا کہ اس قسم کا اقدام گروپ اور بھارت کی حکمران ہندوقوم پرست جماعت کے سیاست دانوں کو مشتعل کر سکتا ہے۔
جس کے بعد فیس بک نے اپنے مؤقف کا دفاع کیا اور کمپنی کے ایک ترجمان نے کہا: 'ہم افراد اور اداروں پر محتاط، سخت اور کئی طرح کی انضباطی کارروائی کے بعد پابندی لگاتے ہیں۔'
'ہم سیاسی حیثیت اور جماعتی وابستگی کو خاطر میں لائے بغیر دنیا بھر میں خطرناک تنظیموں اور افراد کے حوالے سے اپنی پالیسی پر عمل درآمد کرتے ہیں۔'
وال سٹریٹ جرنل کی رپورٹ میں فیس بک کے ترجمان کا حوالہ دیا گیا ہے جنہوں نے کہا ہے کہ جانچ پڑتال کرنے والی ٹیم کے انتباہ پر'طریقہ کار کے مطابق بحث کرنے کی ضرورت ہے۔' دریں اثنا بجرنگ دل کے ترجمان نے دوسرے مذہبی گروپوں کے ساتھ اپنی لڑائی کی تردید کی ہے۔
دنیا بھر میں فیس بک کے صارفین کی تعداد اڑھائی ارب ہے جن میں بھارت اور اس کے 30 کروڑ صارفین اس کے لیے اہم مارکیٹ ہیں۔ فیس بک نے بھارت میں نئے کاروباری منصوبوں میں بھی بہت بڑی سرمایہ کاری کی ہے۔
1984 میں آغاز کرنے والے بجرنگ دل گروپ کے بھارت بھر میں سینکڑوں دفاتر ہیں۔ یہ گروپ اقلیتوں، جن میں مسیحی اور مسلمان بھی شامل ہیں، پر حملوں کی وجہ سے بدنام ہو چکا ہے۔2018 میں امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے نے اس گروپ کو مذہبی عسکریت پسند تنظیم قرار دیا تھا۔بجرنگ دل راشٹریہ سوائم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) نامی تنظیم کا یوتھ ونگ ہے۔ یہ تنظیم حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کی نظریاتی سرپرست خیال کی جاتی ہے۔
صرف بجرنگ دل ہی نہیں فیس بک کی جانچ پڑتال کرنے والی ٹیم دائیں بازو کے دو مزید ہندو گروپوں پر پابندی لگانے کے خلاف بھی خبردار کر چکی ہے۔ ان گروپوں میں سناتن سنستھا اور سری رام سینا شامل ہیں جو سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر سرگرم ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
فیس بک نے مبینہ طور پر بھارت کو میانمار، سری لنکا اور پاکستان کی طرح ایسے ملکوں میں شامل قرار دے رکھا ہے جہاں معاشرتی تشدد کا خطرہ بہت زیادہ ہے اور کمپنی کو کمزور آبادیوں کے تحفظ کے لیے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
اکتوبر میں بھارت میں کمپنی کے پبلک پالیسی سے متعلق اعلیٰ ترین عہدے دار انکھی داس نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ انہوں نے اگست میں وال سٹریٹ جرنل کی رپورٹ سامنے آنے کے بعد ایسا کیا تھا۔
مذکورہ رپورٹ میں اخبار نے کہا تھا کہ انکھی داس نے فیس بک کے ملازمین کو ہدایت کی تھی کہ وہ بھارت کی حکمران جماعت بی جے پی کے سینیئر رہنماؤں کی جانب سے پوسٹ کی گئیں مبینہ طور پر نفرت پر مبنی تقاریر کو نہ ہٹائیں، تاہم فیس بک نے بی جے پی کے لیے نرم گوشہ رکھنے کے الزامات کی تردید کی ہے۔
اس صورت حال کے پیش نظر بھارت کی حزب اختلاف کی جماعت نے فیس بک کے سی ای او مارک زکربرگ کوخط لکھ کر مطالبہ کیا کہ معاملے کی تحقیقات کروائی جائیں جب کہ بھارت کے وزیر قانون روی شنکر پرشاد، جن کا تعلق بی جے پی سے ہے، نے فیس بک کو خط لکھا جس میں الزام لگایا کہ دائیں بازو کے نظریات کی حمایت کرنے والوں کے خلاف تعصب برتا جا رہا ہے۔
فیس بک اپنے پلیٹ فارم پر نفرت پر مبنی مواد اور نسل پرستی کی وجہ سے بڑھتے ہوئے دباؤ کی زد میں ہے۔ اس نے اگست میں نفرت پر مبنی تقریر کے مواد کو سیاہ کرکے اس پر پابندی لگا دی تھی۔ اکتوبر میں اس نے ایسے مواد پر پابندی پر عائد کر دی تھی جس میں یہودیوں کے قتل عام (ہولوکوسٹ) کی تردید کی گئی تھی یا اسے توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا تھا۔
© The Independent