افغان پولیس ٹیم کس طرح طالبان کو دوبارہ دیہات میں آباد کر رہی ہے

افغانستان میں عسکریت پسندی چھوڑنے والے طالبان جنگجوؤں کے کھیت آباد کیے جا رہے ہیں اور یقینی بنایا جا رہا ہے کہ اب انہیں کوئی تنگ نہ کرے۔

امریکی فوج نے 15 مرتبہ حاجی لالہ کے گھر پر چھاپہ مارا(اے ایف پی)

دس سال سے زیادہ عرصے تک طالبان کے لیے لڑنے والے اور افغان اور امریکی فورسز کو مطلوب حاجی لالہ سوچتے تھے کہ ان کی گھر واپسی مشکل ہے۔

حاجی لالہ کبھی طالبان کمانڈر اور گروپ کے ضلعی عہدے دار ہوا کرتے تھے۔ وہ بتاتے ہیں کہ انہیں پاکستانی سکیورٹی ادارے نے پکڑ کر اڑھائی سال تک حراست میں رکھا۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق حاجی لالہ نے بتایا کہ اس دوران کس طرح ان سے ایک جاسوس کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لیے پوچھ گچھ کی گئی۔ 

جب انہیں رہا کیا گیا تو 58 سالہ طالبان رہنما نے عزم کیا کہ وہ عسکریت پسندی میں گزارے ہوئے اپنے ماضی کو پس پشت ڈال دیں گے اور گھر واپس جانے کا راستہ تلاش کریں گے، لیکن یہ صرف افغان پولیس کے سربراہ اور ایک سابق طالبان ساتھی کی مدد سے ممکن ہوا کہ انہیں افغانستان کے جنوبی صوبے قندھار میں واقع اپنے گھر واپس جانے کا موقع مل گیا۔ 

حاجی لالہ نے افغان پولیس افسر پر اعتماد کرتے ہوئے اپنے ابتدائی خوف کے حوالے سے اے ایف پی سے بات چیت میں کہا: ’میں نے سوچا کہ ہو سکتا ہے وہ مجھے امریکی فوج کے حوالے کر دیں، پکڑے جانے سے پہلے امریکی فوج نے 15 مرتبہ ان کے گھر پر چھاپہ مارا تھا۔ جب میں واپس پہنچا تو دوست اور گاؤں کے لوگ 10 دن تک مجھ سے ملنے آتے رہے جیسے شادی کی کوئی تقریب ہو۔ اب گاؤں میں میری ساکھ اچھی ہے اور پولیس مجھے تنگ نہیں کرتی۔ میں خود کو مکمل محفوظ سمجھتا ہوں۔‘

حاجی لالہ اس سال کے شروع میں گھر واپس پہنچے تھے۔ یہ واپسی ضلع پنجوائی کے سابق پولیس سربراہ سلطان محمد حکیمی کی جانب سے انہیں دیے گئے تحفظ کی بدولت ممکن ہوئی تھی۔ اپنے پورے کیریئر کے دوران خونریزی دیکھنے کے باوجود حکیمی نے سابق طالبان جنگجوؤں، کمانڈروں اور عہدے داروں کو گاؤں کی زندگی کا دوبارہ حصہ بننے کا موقع دینے کو اپنی زندگی کا مشن بنا رکھا ہے۔

حکیمی کا کہنا تھا: ’ہم سابق جنگجوؤں کو واپسی کی دعوت دیتے ہیں۔ انہیں یقین دلاتے ہیں کوئی انہیں ہراساں نہیں کرے گا۔ وہ طالبان جن کے فارم تباہ کر دیے گئے تھے ہم نے انہیں دوبارہ تعمیر کر دیا ہے۔ جنہیں پانی میسر نہیں تھا ان کے لیے کنویں کھودے گئے ہیں۔’

ریٹائرمنٹ کے بعد بھی حکیمی اپنی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں، جن کا آغاز قندھار پولیس کے سابق سربراہ اور عسکریت پسندوں کے انتہائی مخالف جنرل عبدالرزاق نے کیا تھا۔ انہیں2018 میں قتل کر دیا گیا تھا۔ اس وقت سے رزاق کے بھائی تدین خان اچکزئی صوبائی پولیس کے سربراہ کا عہدہ سنبھالنے کے بعد ان کوششوں کا حصہ بن چکے ہیں۔

اچکزئی کا کہنا تھا: ’ہم مستقبل میں ان کی مدد جاری رکھیں گے۔ وہ بھی ہمارے بھائی ہیں۔اگر ہمیں زندہ رہنے کا حق ہے تو طالبان کو بھی ہے لیکن انہیں پرامن اور خود کش حملوں اور لوگوں کو مارنے سے باز رہنا ہوگا۔‘ 

حکیمی کے لیے یہ مصالحتی کوششوں میں اپنا کردار ادا کرنے اور طالبان کی قیادت کو کمزور کرنے کا ایک طریقہ ہے۔ انہوں نے پنجوائی پولیس کے سربراہ کی حیثیت سے ضلعے کے تمام دیہات کوعسکریت پسندوں سے پاک کرنے کا آپریشن شروع کیا تھا جس کے نتیجے میں یہ علاقہ قندھار کا سب سے محفوظ علاقہ بن گیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تاہم افغانستان میں بڑھتے ہوئے تشدد کی وجہ سے صورت حال نازک ہے۔ گذشتہ ماہ طالبان نے بڑا حملہ کر کے پنجوائی پر دوبارہ قبضہ کر لیا۔

رواں سال فروری میں طالبان نے واشنگٹن کے ساتھ ایک معاہدہ کیا جس سے مئی 2021 تک افغانستان سے غیرملکی فوجوں کی واپسی اور قطر میں عسکریت پسندوں اور افغان حکومت کے درمیان مذاکرات کی راہ ہموار ہو گئی۔ سینکڑوں طالبان اپنے گروپ سے الگ ہو چکے ہیں اس کے باجود اب بھی ہزاروں طالبان اس کا حصہ ہیں۔ گروپ کا دعویٰ ہے کہ اس کا افغانستان کے آدھے سے زیادہ حصے پر اثرورسوخ قائم ہے۔

لڑائی سے متعلق تھنک ٹینک انٹرنیشنل کرائسس گروپ سے تعلق رکھنے والے اینڈریو وٹکنز کہتے ہیں طالبان جنگجوؤں کو معاشرے کا حصہ بنانے کے لیے اس سے پہلے کی گئی متعدد کوششیں ناکام ہو چکی ہیں کیونکہ ان کوششوں میں تسلسل نہیں تھا۔ انہوں نے کہا: ’وہ بڑے طالبان کمانڈروں کو قائل کرنے میں ناکام رہے کہ وہ جنگجوؤں کو زیادہ تعداد میں ساتھ لے کر آئیں۔‘ 

پنجوائی میں دوبارہ آباد ہونے اور کاشت کاری شروع کرنے سے پہلے 48 سالہ طالبان کمانڈرملا رؤف نے اپنی آدھی سے زیادہ زندگی لڑتے ہوئے گزاری ۔ انہوں نے اسی راستے کا انتخاب کیا جس کا حاجی لالہ نے کیا تھا۔ انہوں نے حکام کے سامنے ہتھیار ڈالنے کی بجائے حکیمی سے رابطہ کیا تاکہ خود کو ممکنہ طور پر جیل جانے سمیت دوسرے مسائل سے بچا سکیں۔

جنگجو کے انداز میں زندگی گزارنے کے بعد53 سالہ حاجی احمداللہ اب قندھار کے مہنگے علاقے میں رہتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا: ’میں کسی مسئلے کے بغیر اپنے گاؤں یا شہر میں جاتا ہوں۔ اب ہتھیار یا محافظ میرے ساتھ نہیں ہوتے۔‘ جب وہ یہ باتیں کر رہے تھے تو ان کے بیٹے سابق پولیس افسر حکیمی کے بیٹے کے ساتھ باتیں کرنے اور ہنسنے میں مصروف تھے، جنہیں وہ دیکھ  رہے تھے۔ 

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا