پومپیو کا ایران پر القاعدہ سے تعلق کا الزام عائد کرنے کا امکان

روئٹرز کے مطابق دو ذرائع کا کہنا ہے کہ امریکی وزیر خارجہ منگل کو نئی ڈی کلاسیفائیڈ امریکی انٹیلی جنس رپورٹس کو استعمال کرتے ہوئے ایران پر القاعدہ سے تعلق کا الزام عائد کریں گے۔

مائیک پومپیو ماضی میں بھی ایران پر القاعدہ سے تعلق کا الزام عائد کر چکے ہیں (اے ایف پی فائل فوٹو)

امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو ایران پر القاعدہ سے تعلق کا الزام عائد کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق وہ منگل کو نئی ڈی کلاسیفائیڈ امریکی انٹیلی جنس رپورٹس کو استعمال کرتے ہوئے ایران پر القاعدہ سے تعلق کا الزام عائد کریں گے۔ اس معاملے سے آگاہ دو افراد کے مطابق یہ فیصلہ ٹرمپ انتظامیہ کے ایران کے خلاف اپنے آخری دنوں میں کیے جانے والے اقدامات میں سے ایک ہے۔

صدر ٹرمپ کے دور صدارت کے خاتمے سے صرف آٹھ دن پہلے توقع کی جا رہی ہے کہ پومپیو ایران کی جانب سے القاعدہ رہنماؤں کو محفوظ پناہ گاہیں دینے اور اسے حمایت فراہم کرنے کی تفصیلات کو ظاہر کریں گے۔ ذرائع کے مطابق اس حوالے سے کانگریس اور انٹیلی جنس کمیٹی میں کافی تحفظات پائے جاتے ہیں۔

یہ واضح نہیں کہ وہ منگل کو نیشنل پریس کلب میں اس تقریر میں اس حوالے سے کتنی تفصیلات ظاہر کریں گے۔ نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر معاملے سے آگاہ ذرائع نے روئٹرز کو بتایا کہ وہ اس حوالے سے اگست میں تہران میں القاعدہ کے سیکنڈ ان کمانڈ کی ہلاکت کو ایک مثال کے طور پر استعمال کر سکتے ہیں۔

’نیو یارک ٹائمز‘ میں نومبر میں شائع ہونے والی ایک خبر کے مطابق ابو محمد المصری، جن پر افریقہ میں دو امریکی سفارت خانوں پر حملوں کی منصوبہ بندی میں مدد کا الزام عائد کیا جاتا تھا، کو اسرائیلی ایجنٹس نے ایران میں ہلاک کر دیا تھا۔ ایران نے اس رپورٹ کی تردید کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس کی زمین پر کوئی القاعدہ کے ’دہشت گرد‘ نہیں۔

صدر ٹرمپ کی دور صدارت میں ایران ان کی انتظامیہ کا مسلسل ہدف رہا ہے جبکہ حالیہ ہفتوں میں پومپیو نے ایران پر مزید دباؤ ڈالنے اور سخت پابندیوں سمیت کئی اقدامات اٹھائے ہیں۔

نو منتخب صدر جو بائیڈن کے مشیروں کے مطابق ٹرمپ انتظامیہ یہ کوششیں اس لیے کر رہی ہے تاکہ نئی انتظامیہ کو ایران سے دوبارہ تعلقات بحال کرنے اور جوہری معاہدے میں دوبارہ شمولیت کے حوالے سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑے۔

مزید پابندیاں

پومپیو ماضی میں بھی ایران پر القاعدہ سے تعلق کا الزام عائد کر چکے ہیں لیکن انہوں نے اس کا کوئی ٹھوس ثبوت نہیں دیا تھا۔ اکتوبر 2017 میں اس وقت کے سی آئی اے ڈائریکٹر پومپیو نے کہا تھا کہ ’ایسا کئی بار ہو چکا ہے کہ ایرانیوں نے القاعدہ کے ساتھ مل کر کام کیا ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس سے قبل سابق صدر جارج ڈبلیو بش کی جانب سے ایران کے القاعدہ اور نائن الیون حملوں سے تعلق کے حوالے سے عائد الزامات کو جھٹلایا جا چکا ہے لیکن کئی برسوں سے القاعدہ آپریٹیوز کی ایران میں موجودگی کی خبریں منظر عام پر آتی رہی ہیں۔

اس معاملے کی براہ راست معلومات رکھنے والے ایک سابق سینیئر امریکی انٹیلی جنس اہلکار کا کہنا تھا کہ 11 ستمبر کے حملوں سے قبل یا اس کے بعد ایرانیوں کی القاعدہ کے ساتھ دوستی نہیں تھی اور موجودہ تعاون کے کسی بھی دعوے کو بہت احتیاط سے دیکھا جانا چاہیے۔ ایران اور القاعدہ ہمیشہ سے فرقہ وارانہ دشمن رہے ہیں۔

2018 سے تہران اور واشنگٹن کے درمیان تعلقات مسلسل کشیدگی کا شکار ہیں۔ 2018 میں صدر ٹرمپ نے ایران کے ساتھ 2015 کے جوہری معاہدے کو ترک کردیا تھا۔ معاہدے کے تحت ایران نے پابندیوں کو ختم کرنے کے بدلے میں اپنی جوہری سرگرمیوں کو کم کر دیا تھا۔

اپنے دور صدارت کے آغاز سے ہی صدر ٹرمپ نے ایرانی عہدے داروں، سیاست دانوں اور کمپنیوں پر پابندیاں عائد کردی تھیں تاکہ وہ تہران کو ایک وسیع تر معاہدے پر بات چیت کے لیے مجبور کر سکیں جو اس کے جوہری پروگرام کو مزید محدود رکھ سکے۔

امریکی حکام کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کے اقتدار چھوڑنے سے قبل مزید پابندیوں کی توقع کی جا رہی ہے۔ اگرچہ ان پابندیوں نے تہران کی تیل کی برآمدات میں تیزی سے کمی کی ہے اور عام ایرانیوں کی معاشی مشکلات میں اضافہ ہوا ہے لیکن وہ ایران کو دوبارہ مذاکرات کی میز پر لانے میں ناکام رہی ہیں۔

نو منتخب صدر جو بائیڈن کہہ چکے ہیں کہ ’اگر ایران نے معاہدے پر سختی سے عمل درآمد شروع کیا تو امریکہ جوہری معاہدے میں دوبارہ شامل ہو جائے گا۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی امریکہ