گلوبل فنڈ کا پاکستانی ہسپتال پر 42 لاکھ ڈالر کے فراڈ کا الزام

عالمی فنڈ کے اس بیان نے ٹی بی سے لڑنے کی پاکستان کی صلاحیت کےحوالے سے سنگین سوالات اٹھا دیے ہیں، خاص طور پر اس وقت جب پاکستان عالمی وبا کرونا سے مقابلے کی کوشش کر رہا ہے۔

(تصویر: انڈس ہسپتال کراچی)

ایڈز، ٹی بی اور ملیریا کے خلاف کام کرنے والے بین الااقوامی گلوبل فنڈ نے پاکستانی ہسپتال پر 42 لاکھ ڈالر کی دھوکہ دہی کا الزام عائد کر دیا۔

عرب نیوز کے مطابق فنڈ کی جانب سے الزام عائد کیا گیا ہے کہ ایک بڑے پاکستانی ہسپتال نے ٹی بی کے خاتمے کے لیے ملنے والی ایک گرانٹ سے کی جانے والی خریداری میں 42 لاکھ ڈالر کا فراڈ کیا ہے۔

یاد رہے ٹی بی دنیا کی سب سے مہلک متعدی بیماریوں میں سے ایک ہے۔

عالمی فنڈ کے اس بیان نے ٹی بی سے لڑنے کی پاکستان کی صلاحیت کےحوالے سے سنگین سوالات اٹھا دیے ہیں خاص طور پر اس وقت جب پاکستان عالمی وبا کرونا سے مقابلے کی کوشش کر رہا ہے۔

عالمی ادارہ صحت پہلے ہی یہ بیان جاری کر چکا ہے کہ کرونا کی وبا دنیا بھر میں ٹی بی کے خلاف کیے جانے والے اقدامات میں رکاوٹ بن رہی ہے اور اس بارے میں ہنگامی اقدامات نہ لینے اور سرمایہ کاری نہ ہونے سے اس کے کسیز میں اضافہ دیکھا جا سکتا ہے۔

پاکستان جہاں ہر سال ٹی بی کے تقریبا پانچ لاکھ دس ہزار نئے کیسز کی تصدیق کی جاتی ہے اور اس بیماری سے سالانہ 15000 ہزار افراد کی ہلاکت واقع ہوتی ہے پہلے ہی ان کیسز کے حوالے سے دنیا بھر میں پانچویں نمبر پر ہے۔

گلوبل فنڈ انسپکٹر جنرل دفتر کی جانب سے کی جانے والی اس تحقیق میں انڈس ہسپتال کے ٹی بی پروگرام میں جنوری 2016 سے دسمبر 2018 کے دوران کیے جانے والے فراڈ کو سامنے لایا گیا ہے۔

گلوبل فنڈ نے عرب نیوز کی جانب سے بھیجی جانے والی ای میل کے جواب میں بتایا  کہ 'اس تحقیق میں 42 لاکھ ڈالر کا فراڈ سامنے آیا ہے۔'

عالمی فنڈ ہر سال دنیا بھر کے 100 ممالک میں ٹی بی، ایڈز اور ملیریا جیسی بیماریوں سے مقابلے کے لیے چار ارب ڈالر سے زائد کی رقم خرچ کرتا ہے۔ سال 2003 سے پاکستان کو اب تک 69 کروڑ 70 لاکھ ڈالر اس فنڈ کی مد میں دیے جا چکے ہیں۔

ادارے کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ 'عالمی فنڈ انڈس ہسپتال میں ٹی بی پروگرام میں کی جانے والی اس دھوکہ دہی کی کارروائیوں کی شدید مذمت کرتا ہے۔'

عالمی فنڈ کے مطابق اس نے 31 دسبمر 2020 سے انڈس ہسپتال کو اس پروگرام سے الگ کر دیا ہے اور اب ٹی بی کے حوالے سے پروگرام کو مرسی کور اور نیشنل ٹی بی پروگرام کو منتقل کیا جا رہا ہے۔ یہ دونوں ادارے بھی اس گرانٹ کے وصول کنندگان ہیں۔

ٹی بی کے لیے پاکستان حکومت کے قومی پروگرام کے منیجر ڈاکٹر نسیم اختر کا کہنا ہے کہ عالمی فنڈ نے 'شفافیت کو یقینی بنانے کے انتظامات' کے ذریعے اس فراڈ کو بے نقاب کیا ہے جس کے تحت فنڈز کی نگرانی اور جانچ پڑتال کی جاسکتی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کے مطابق 'انڈس ہسپتال اب اس گرانٹ کا وصول کنندہ نہیں رہا۔ یہ ہمارے لیے شرمندگی کی بات ہے۔' ان کا مزید کہنا تھا کہ ' ہم اب فنڈز کے استعمال کو شفاف بنانے کے لیے مختلف انتظامی تبدیلیاں کر رہے ہیں۔'

 تاہم انڈس ہسپتال کے سی ای او نے دھوکہ دہی کے کسی امکان کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ہسپتال کے پاس فنڈز کے استعمال کے لیے ایک 'سخت طریقہ کار' موجود ہے۔

انڈس ہسپتال کے ڈاکٹر عبدالباری خان نے عرب نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ 'ہم نے ان کی تحقیقی رپورٹ کو جواب دے دیا ہے اب دیکھنا ہے کہ گلوبل فنڈ اس پر کیا موقف دیتا ہے۔'

عالمی ادارہ صحت کے مطابق 22 کروڑ آبادی والا ملک پاکستان ٹی بی کی کیسز کے حوالے سے دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے اور اس کی وجہ بیماری کی تاخیر سے تشخیص، نگرانی نہ ہونا، غیر مناسب اور ناکافی ادویات، دوبارہ معائنہ نہ ہونا اور غیر محفوظ افراد کے لیے سماجی پروگرامز کی کمی ہے۔

ان تخمینے کے مطابق پاکستان میں ہر سال 45 ہزار تین سو سے 44 ہزار لوگ ایچ آئی وی نیگیٹو اور 1300 ایچ آئی وی پازیٹو ٹی بی سے ہلاک ہو جاتے ہیں۔

گلوبل فنڈ کی جانب سے کہا گیا ہے کہ 'پاکستان نے ملیریا سے لڑنے کے لیے مثبت پیش رفت کی ہے لیکن ٹی بی اور ایچ آئی وی کے مقابلے میں مشکلات درپیش ہیں۔'

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان