’کون سی قیامت آئی تھی کہ حکم امتناعی کے باوجود کھوکھر پیلس گرا دیا‘

چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ جسٹس قاسم خان نے دوران سماعت ریمارکس دیے کہ جب درخواست گزار کے پاس حکم امتناعی موجود تھا اور سرکاری زمین پر قبضے سے متعلق عدالتی کارروائی بھی جاری تھی تو فیصلے کا انتظار کیے بغیر کارروائی کیوں کی گئی؟

لاہور ہائی کورٹ میں آج کھوکھر خاندان کی ملکیت کھوکھر پیلس مسمار کیے جانے کے خلاف درخواست پر سماعت ہوئی۔

چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس قاسم خان نے دوران سماعت ریمارکس دیے کہ میڈیا کے ذریعے معلوم ہوا کہ کھوکھر پیلس کو ایل ڈی اے نےخلاف قانون کارروائی کر کے مسمار کیا ہے۔

عدالت عالیہ نے استفسار کیا کہ جب درخواست گزار کے پاس سول عدالت کاحکم امتناعی موجود تھا اور سرکاری زمین پر قبضے سے متعلق عدالتی کارروائی بھی جاری تھی تو عدالتی فیصلے کا انتظار کیے بغیر کارروائی کیوں کی گئی؟

ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے جواب دیا کہ سول عدالت کے 18جنوری کو دیے گئے احکامات پر عمل درآمد کیاگیا۔ درخواست گزار وہاں بھی سول عدالت سے وہ ریلیف مانگ رہے ہیں جو عدالت کے دائرہ اختیار میں نہیں۔

یہ درخواست سیف الملوک کھوکھر کی جانب سے دائر کی گئی تھی جس میں موقف اپنایا گیاکہ لاہور کے علاقے جوہر ٹاؤن میں 177 کنال پر کھوکھر پیلس زمین خرید کر تعمیر کیا گیا، اس کی دستاویزات بھی موجود ہیں جن 30کنال کا تنازع ہے، وہ بھی خریدی گئی تھیں۔ لیکن اچانک ہی ایل ڈی اے، ڈی آئی جی آپریشن پولیس نے پنجاب حکومت کے حکم پر کھوکھر پیلس میں آپریشن کر کے تعمیرات گرا دیں۔ انتظامیہ کو کارروائی سے روکا جائے اور مسمار کی گئی تعمیرات دوبارہ کرائی جائیں۔

حکومت کی جانب سے ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل پیش ہوئے، انہوں نے موقف اپنایا کہ یہ کارروائی سول عدالت کے احکامات پر ہوئی۔ ڈی سی لاہور کا 23 جنوری کا حکم ہے جس کے تحت 24 جنوری کو کھوکھر پیلس مسمار کیا گیا، صرف آٹھ کنال اراضی پر حکم امتناعی لیاگیا تھا، وہ واگزار نہیں کرائی۔

سرکاری وکیل کے مطابق کارروائی سیاسی انتقام کے لیے کرنے کا تاثر غلط ہے کیونکہ یہ قانونی معاملہ ہے اور قانون کے مطابق متعلقہ اداروں نے کارروائی کی ہے۔ جو سرکاری زمین زیر قبضہ تھی وہی واگزار کرائی گئی ہے۔ کھوکھر پیلیس کے خلاف کارروائی سے متعلق نوٹس بھی جاری کیاگیاتھا اور نوٹس گھر کے باہر بھی چسپاں کرایاگیاتھا۔

درخواست گزار کے وکیل احسن بھون نے عدالت عالیہ کے سامنے سول عدالت کا حکم امتناعی رکھا تو چیف جسٹس نے جائزہ لینے کے بعد قرار دیاکہ یہ حکم نامہ پہلے کیوں نہیں پیش کیا گیا کیوں نہ درخواست گزار کو دس لاکھ کا جرمانہ کریں اور رقم مسجد میں جمع کروا دیں؟

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جس پر احسن بھون نے درخواست کی کہ وہ یہ دیکھنا چاہتے تھے کہ سرکاری وکیل اس حکم امتناعی کا تذکرہ کرتے ہیں یا نہیں۔ اس کے علاوہ سرکاری وکیل بات کو گھمارہےہیں حکم امتناعی آٹھ کنال نہیں بلکہ جن 30کنال کا تنازع تھا اس پر کارروائی سے روکنے کا حکم دیاتھا۔ دوسرا یہ کہ کھوکھر برادران نے اس زمین کی خریداری کی تفصیلات بھی جمع کرائی ہیں جن سے ظاہر ہے یہ کارروائی سیاسی انتقام کا نتیجہ ہے۔

چیف جسٹس قاسم خان نے درخواست پر دونوں فریقین کے وکلا کے دلائل مکمل ہونے پرفیصلہ سنایاکہ کھوکھر پیلس کا معاملہ سول عدالت میں طے کیاجائے اور وہاں سے کوئی حکم جاری ہونے تک کارروائی روکی جائے تاہم دوبارہ تعمیرات نہ کی جائیں۔

انتظامیہ کی جانب سے اتوار کے روز کھوکھر پیلس کے خلاف آپریشن کیاگیاتھا، متاثرین کے مطابق ان کے گھر اور دیواریں مسمار کر دی گئی تھیں۔ اس حوالے سے حکومت نے اربوں کی زمین واگزار کرانے جبکہ کھوکھروں کی جانب سے اسے انتقامی کارروائی قرار دیاگیاتھا۔

عدالتی حکم کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سیف الملوک کھوکھر نے کہاکہ عدالت نے واضح کر دیا ہے کہ کھوکھر پیلس کے خلاف حکومتی کارروائی غیر قانونی تھی اور یہ سیاسی انتقام تھا۔ ہمارا موقف عدالت نے واضح کر دیا اور حکومت کے لیے یہ شرم کی بات ہےکہ لوگوں کے گھر بلاوجہ مسمار کیے جارہے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان