پاکستان کہتا ہے کہ وہ بڑی تبدیلی کی راہ پر ہے، لیکن کیا واقعی ایسا ہے؟

پاکستان میں حالیہ مہینوں کے دوران چند اہم ترین تبدیلیاں دیکھی گئی ہیں اور حکومتِ پاکستان چاہتی ہے کہ آپ اس پر یقین بھی کریں۔

روئٹرز فوٹو

پاکستان میں حالیہ مہینوں کے دوران چند اہم ترین تبدیلیاں دیکھی گئی ہیں اور حکومتِ پاکستان چاہتی ہے کہ آپ یہ بات مان لیں کہ ملک میں تبدیلی آ رہی ہے۔

اس سلسلے میں روئٹرز سمیت بین الاقوامی صحافیوں کے ایک گروپ نے رواں ماہ ملک کی اعلیٰ ترین سیاسی اور فوجی قیادت سے ملاقاتیں کیں جن میں وزیراعظم عمران خان اور فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ بھی شامل تھے۔ ان ملاقاتوں کا موضوع پاکستان کا نیا بیانیہ تھا۔

ملاقاتوں کے دوران اعلیٰ حکام نے اہم دعوے کیے جن میں سے بعض اشاعت کے لیے تھے اور بعض ’آف دی ریکارڈ،‘ لیکن ان سب میں پیغام ایک ہی تھا ’پاکستان میں تبدیلی آ رہی ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان تصادم سےعاجز آ چکا ہے، شدت پسندی سے چھٹکارا، امن مذاکرات سے مسائل کا حل اور بدعنوانی سے نجات چاہتا ہے۔

حکام کا دعویٰ ہے کہ حکومت کی باگ ڈور سیاسی قیادت کے ہاتھوں میں ہے جبکہ فوج غالب ہونے کے بجائے اب اقتدار میں شراکت دار ہے۔

یہ سب سننے میں اچھا لگتا ہے مگر اہم سوال یہ ہے کہ کیا حقیقت میں ایسا ہی ہے؟

مسئلہ یہ ہے کہ عالمی برادری جو بغور صورتحال کا جائزہ لے رہی ہے، اب بھی شبے کا شکار ہے۔

نئی دہلی میں جارحانہ رویہ رکھنے والی مودی حکومت کے علاوہ دوسرے عناصر بھی پاکستان کے ان دعووں پر یقین کرنے کو تیار نہیں ہیں کیونکہ ان کا ماننا ہے کہ دنیا پہلے بھی پاکستان کے وعدوں کو پرکھ چکی ہے اور مبینہ طور پر ریاستی حمایت یافتہ شدت پسند اب بھی بھارت میں حملے جاری رکھے ہوئے ہیں۔

14 فروری کو بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں ایک بڑے خود کش حملے کے بعد دونوں ملک ممکنہ ایٹمی جنگ کے دہانے تک پہنچ گئے تھے۔

بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان رویش کمار نے روئٹرز کو بتایا کہ اس سب کا ذمہ دار پاکستان ہے۔

’پاکستان کو دہشت گردی اور دہشت گرد تنظیموں کے خلاف فوری طور پر قابل اعتماد، قابل تصدیق اور ناقابل واپسی کارروائی کرنا چاہیے جو اس کے علاقوں سے بھارت میں کارروائیاں کرتی ہیں۔‘

رویش کمار نے الزام لگایا کہ ’پاکستان ہر دہشت گرد حملے کے بعد ایک جیسی رٹی رٹائی باتیں کرتا ہے اور ’موثر کارروائی‘ کا وعدہ کر کے بین الاقوامی دباؤ کو کم کرنے کی کوشش کرتا ہے اور صورتحال معمول پر آنے کے بعد وہ اپنے علاقوں میں دہشت گرد گروہوں کو معاونت اور پناہ گاہوں کی فراہمی جاری رکھتا ہے۔‘

لیکن دوسری جانب پاکستانی وزارتِ خارجہ کے ترجمان ڈاکٹر محمد فیصل کا کہنا ہے کہ صرف بات چیت ہی مسائل کا حل ہے۔

انہوں نے گذشتہ ہفتے انڈپینڈنٹ اردو سے خصوصی انٹرویو دیا تھا۔ انٹرویو میں پاکستان کے علاقائی اور بین الاقوامی تعلقات پر سیر حاصل گفتگو ہوئی۔ بھارت کے ساتھ تعلقات کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا تھا: ’میری یہ دلی خواہش ہے کہ ہم گفتگو کریں ،بات چیت کریں ، مسائل حل کریں، امن کے ماحول میں رہ سکیں (تاکہ) ہمیں ہندوستان کے جہازوں کو گرانے کی ضرورت نہ پڑے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ آپ دہشت گردی پہ بھی بات کریں سرکریک پہ بھی بات کریں، سیاچین پہ بھی بات کریں جو بنیادی مسئلہ ہے، جموں و کشمیر اُس پہ بھی بات کریں۔ سارک ڈھائی سال سے رکی ہوئی ہے۔ ثقافتی تبادلہ ہونا چاہیے، یہاں سے ڈراموں کو وہاں جانا چاہیے، وہاں سے ڈراموں کو یہاں آنا چاہیے۔ ایک دوسرے کو سمجھنے میں مدد ملنی چاہیے ۔‘

یقینی طور پر پاکستان کی مثبت باتیں بھارت میں گونجنے کا کوئی امکان نہیں جہاں وزیراعظم نریدنر مودی کی قیادت میں ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی نے ملک کے 39 روزہ عام انتخابات کے دوران وطن پرست اور پاکستان مخالف محاذ سنبھالا ہوا ہے۔

پاکستان کو دوستوں کی ضرورت ہے

بھارت کے جارحانہ رویے کے بعد اسلام آباد کو عالمی سطح پر دوستوں کی ضرورت ہے۔

پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ بھارت عالمی ادارے ایف اے ٹی ایف میں پاکستان کو بلیک لسٹ کرنے کے لیے بھرپور لابنگ کر رہا ہے۔

اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ اس کی معیشت کے لیے بڑا دھچکہ ثابت ہو گا، اقتصادی بحران کے شکار پاکستان کی عالمی سطح پر تجارت اور بینکنگ تعلقات کو بھی شدید نقصان پہنچے گا۔

چین، سعودی عرب اور خلیجی ممالک نے پاکستان کی مالی معاونت تو کی ہے تاہم اس صورتحال سے نکلنے کے لیے پاکستان کو عالمی سطح پر نئے دوستوں کی ضرورت ہو گی۔

پاکستان معاشی بحران سے نکلنے کے لیے عالمی بینک اور آئی ایم ایف سے بھی مذاکرات کر رہا ہے جس میں بھارت روڑے اٹکا سکتا ہے۔

ہمسایہ ممالک سے امن مذاکرات

عمران خان حکومت کا کہنا ہے پاکستان تمام محاذوں پر امن کے لیے کوششیں کر رہا ہے۔ اس سلسلے میں افغانستان میں پائیدار امن کے لیے طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے اسلام آباد عسکری گروہ پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کرنے کا دعویٰ کرتا ہے۔

ایران کے ساتھ بھی پاکستان کے تعلقات اتار چڑھاؤ کا شکار رہے ہیں، تہران سرحدی علاقوں میں اپنی سکیورٹی فورسز پر حملوں کا الزام پاکستان میں موجود شدت پسند گروہوں پر لگاتا ہے۔

اس الزام تراشی سے بچنے کے لیے وزیراعظم عمران خان نے گذشتہ ہفتے دورہِ تہران کے دوران سرحد کی حفاظت کے لیے مشترکہ ریپڈ فورس بنانے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔

وزیراعظم بننے کے بعد سے عمران خان بھارت سے مذاکرات کی ضرورت پر زور دے رہے ہیں۔ اس سلسلے میں وہ اپنے بھارتی ہم منصب کو خط اور ٹیلی وژن پر اپنے خطابات کے ذریعے مذاکرات کی دعوت دے چکے ہیں۔

بھارت کا اصرار ہے کہ پاکستان مذاکرات سے قبل دہشت سے پاک ماحول بنائے۔

وزیراعظم عمران خان نے امید ظاہر کی ہے کہ انتخابات کے بعد بھارت میں بننے والی نئی حکومت ضرور مذاکرات کا راستہ اختیار کرے گی۔

پاکستان شمالی آئرلینڈ سے کیا سبق سیکھ سکتا ہے؟

اسلام آباد میں حکام کا کہنا ہے کہ شمالی آئرلینڈ کا ماڈل اپناتے ہوئے پاکستان امن عمل اور تخفیف اسلحہ جیسے اقدامات اٹھا سکتا ہے۔

اس سلسلے میں اپنی سرزمین سے عسکریت پسند گروہوں کا خاتمہ، ملک بھر میں پھیلے ہوئے 32 ہزار سے زیادہ مدرسوں کو قومی دھارے میں شامل کرنا اہم ترجیہات ہیں۔

وزیراعظم عمران خان نے صحافیوں کو بتایا کہ وہ یہ اقدامات ملکی مفاد میں اٹھا رہے ہیں۔

’بیرونی دباؤ کو بھول جائیں، یہ ہمارے ملک کے مستقبل کے لیے اہم ہے۔ ہم مسلح گروہوں کو اپنی سر زمین استعمال کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے۔ اس سلسلے میں میری حکومت کو فوج اور حساس اداروں کی مکمل حمایت حاصل ہے جو ان گروہوں کے خاتمے کے لیے کارروائیاں کر رہے ہیں۔‘

یہی نہیں بلکہ فوج کے سربراہ خود ان کارروائیوں کے حوالے سے لیے گئے اقدامات پر وزیراعظم کو رپورٹ پیش کر رہے ہیں۔

فوجی حکام کا کہنا ہے کہ وہ 10 کروڑ پاکستانیوں کو غربت کی چکی سے نکالنا چاہتے ہیں اور اس کے لیے تعلیم پر توجہ دینا ہو گی۔

اس دوران فوجی حکام نے صحافیوں کو سوات میں قائم جدید سکولوں اور بحالی کے اداروں کا دورہ بھی کرایا جہاں عسکریت پسندی سے متاثرہ افراد کو تعلیم فراہم کی جا رہی تھی۔

عمران خان نے اپنی کابینہ میں ردوبدل کرتے ہوئے کئی وزرا کو عہدوں سے ہٹا دیا۔ اس سلسلے میں بریگیڈیر (ر) اعجاز شاہ کو وزارت داخلہ کی اہم ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ شاہ پر شدت پسند گروہوں کی معاونت کا الزام ہے ایسی صورتحال میں دنیا پاکستان کے نئے بیانیہ پر کیسے اعتماد کرے گی؟

ذرائع نے روئٹرز کو بتایا کہ حکومت اب بھی بھارت مخالف عسکریت پسند گروہوں کے خلاف کارروائی میں سنجیدہ نہیں۔

اُس وقت کے وزیر اطلاعات فواد چوہدری جو دورے کے دوران غیرملکی صحافیوں کے مرکزی رہنما تھے اب تبدیل کر دیے گئے ہیں۔ لہٰذا، اگر پاکستان واقعی تبدیل ہونا چاہتا ہے تو اسے واضح طور پر دنیا کو بہت زیادہ قائل کرنے کی ضرورت ہو گی اور غیر ملکی صحافیوں کا یہ دورہ صرف ایک آغاز ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست