پختون تحفظ موومنٹ کے مرکزی رہنما اور سماجی کارکن ڈاکٹر سید عالم محسود کی ریاست کو خلاف بیان بازی کے مقدمات میں عدالت سے ضمانت ملنے کے ایک روز بعد منگل کو سینٹرل جیل مردان سے رہا کر دیا گیا۔
اس سے قبل مردان کی ماڈل کورٹ کے ایڈیشنل سیشن جج نے دو دولاکھ مچلکوں کے عوض ڈاکٹر سید عالم محسود کی ضمانت منظور کی تھی۔
ڈاکٹر سید عالم محسود کو ضلع ٹانک میں ضمانت پر رہائی کے دوران مردان پولیس نے اپریل 2018 میں ریاست کے خلاف بیان بازی پر کاٹی گئی ایف آئی آر میں نامزد ہونے پر گرفتار کیا اور 25 جنوری کو ٹانک سے مردان تھانہ سٹی پولیس کے حوالے کر دیا تھا۔ انہیں 26 جنوری کو عدالت میں پیش کر کے جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا گیا تھا۔
28 اور 30 جنوری کو دو عدالتی پیشیوں میں پولیس ریکارڈ پیش نہ ہو سکے، پھر یکم فروری کومردان کی ماڈل کورٹ میں پولیس نے ریکارڈ پیش کر دیے جبکہ پی ٹی ایم کے رہنما کے وکلا نے ضمانت کے لیے دی گئی درخواست پر فیصلہ دیا اور دو دو لاکھ روپے کے مچلکوں کے عوض ڈاکٹرسیدعالم محسود کی ضمانت منظور کر لی۔
پی ٹی ایم کے سربراہ منظورپشتین جلسے کے لیے مہم چلانے اور ڈاکٹر سید عالم کی رہائی کے سلسلے میں مردان کے دورے پر تھے۔ انہوں نے اس موقعے پر انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ڈاکٹر سیدعالم محسود کی طرح ان کے دیگر کارکنوں پر ’بوگس اور غیرقانونی‘ مقدمات بنائے جا رہے ہیں۔ 123 اور124 کے مقدمات کے لیے قومی اسمبلی سے بل منظور کرنا ہوتا ہے لیکن یہاں ایک ایس ایچ او غداری کے مقدمات درج کرتے ہیں جنہیں قانون اس کی اجازت نہیں دیتا۔‘
منظورپشتین نے کہا کہ قانون کا غلط استعمال عدالتوں میں جج دیکھ رہے ہیں اور الزام ثابت نہ ہونے پر ہمارے کارکنان رہا ہو رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ کام انہیں صرف تنگ کرنے کے لیے کیا جا رہا ہے، کیونکہ وہ اپنی مظلوم قوم کے لیے حقوق اور انصاف چاہتے ہیں۔
منظور پشتین نے کہا کہ 1930 میں بھی پختون سیاسی رہنماؤں کو جیلوں میں ڈال دیا جاتا تھا اور اب 2020 میں بھی پختونوں کے حقوق کی بات کرنے والوں کو جیلوں میں بند کیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ اپنے قوم کی پرامن زندگی اوراس مٹی پر صلح اورامن کے لیے جدوجہد اور کوششیں جاری رکھیں گے۔
بعد ازاں ڈاکٹر سید عالم محسود کی ضمانت ملنے کے باوجود رہائی نہ ملنے اور مردان جیل سپرنٹنڈنٹ کی جانب سے ٹال مٹول پر پی ٹی ایم کے سربراہ منظورپشتین نے مردان سینٹرل جیل کے سامنے بیان جاری کرتے ہوئے اس کی شدید مذمت کرتے ہوئے دو فروری کو جیل سپرنٹندنٹ کے خلاف توہین عدالت کی درخواست دینے کا اعلان کر دیا اور کہا کہ اگرعدالت کے احکامات کے باوجود ڈاکٹر سید عالم محسود کو رہائی نہیں دی تو مردان سنٹرل جیل کے سامنے دھرنا، احتجاج یا جلسے کا لائحہ عمل تیار کیا جائے گا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
گرفتار رہنما ڈاکٹر سیدعالم محسود کی کیس کی پیروری کرنے والے وکیل کفایت اللہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ پی ٹی ایم کے مردان کے کارکنان کے خلاف اپریل 2018 کو جلسے کے لیے مہم کرنے پر مردان پولیس تھانہ سٹی میں مقدمہ درج کیا گیا تھا جس میں مقامی شامل کارکنان کی ضمانتیں بھی ہو گئی ہیں بعد میں اس ایف آئی آر میں ڈاکٹرسید عالم محسود، منظورپشتین، قومی اسمبلی کے اراکین محسن داوڑ اورعلی وزیر کے خلاف دفعہ 109 کے تحت 124 اور 153 اے ریاست کے خلاف نازیبا الفاظ یا بیان بازی کے مقدمات میں چارج کیے گئے۔
وکیل کفایت اللہ نے بتایا کہ ڈاکٹر سید عالم محسود کی ٹانک میں ضمانت منظور ہونے کے بعد مقدمہ مردان پولیس کے حوالے کیا گیا جبکہ پچھلی دو تاریخوں میں پولیس نے قصداً ریکارڈ پیش نہیں کیا گیا۔ اگلے پیشی 30 جنوری کو ماڈل کورٹ کے ایڈیشن سیشن جج افتخارالہٰی نے پولیس کو وارننگ دیتے ہوئے کہا کہ یکم فروری کو اگر پولیس نے ریکارڈ پیش نہیں کیا تو وہ ڈاکٹر سید عالم کو ضمانت دے دیں گے اور یکم فروری کی صبح تک پولیس نے کورٹ میں کوئی ریکارڈ پیش نہیں کیا جس پر عدالت نے پولیس کی دوبارسرزنش کی جس کے بعد ریکارڈ پیش کیا گیا۔
ڈاکٹر سید عالم محسود کے وکیل کفایت اللہ نے جیل سے رہائی نہ ملنے پر بتایا کہ انہیں نہیں معلوم کہ کس وجہ سے جیل سپرنٹنڈنٹ نے رہائی رکوائی ہے کیونکہ عدالت نے جیل انتظامیہ کو بالکل واضح طور پر رہائی کا حکم دیا ہے۔
پی ٹی ایم کے کارکنان کے خلاف ملک کے مختلف شہروں میں مقدمات درج ہونے پر اس وقت ایک درجن کے قریب کارکنان جیلوں میں بند ہیں جس میں مرکزی رہنما اور قومی اسمبلی کے رکن علی وزیر کراچی کے جیل میں مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو نے مردان سینٹرل جیل کے سپرنٹنڈنٹ حمید خان سے ان کے موبائل نمبرپر باربار رابطہ کرنے کی کوشش جس کے بعد جواب ملا کہ ان کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے اور وہ اس وقت بات نہیں کر سکتے۔