میانمار میں فوجی بغاوت: صدر بائیڈن کیسی پابندیاں لگا سکتے ہیں؟

میانمار میں فوج کے اقتدار پر قبضے کے بعد نئے امریکی صدر جو بائیڈن کو عالمی سطح پر اپنے پہلے بحران کا سامنا ہے۔

دسمبر 2019 میں یانگون میں آنگ سان سوچی کے حق میں ایک مظاہرہ (اے ایف پی)

میانمار میں فوج کے اقتدار پر قبضے کے بعد نئے امریکی صدر جو بائیڈن کو بین الاقوامی سطح پر اپنے پہلے بحران کا سامنا ہے۔

وہ پابندیوں کا نیا پروگرام نافذ کرنے کے ساتھ ساتھ امداد میں کمی اور جرنیلوں اور ان کی کمپنیوں کو ہدف بنا سکتے ہیں تاکہ ان پر جمہوریت کی طرف واپسی کے لیے دباؤ ڈالا سکے۔ تاہم اس معاملے میں نئی امریکی انتظامیہ کا ردعمل ملکی خارجہ پالیسی میں انسانی حقوق کو مرکز بنانے اور اتحادیوں کے ساتھ زیادہ قریب ہو کر کام کرنے کے بائیڈن کے وعدوں کا قبل از وقت امتحان ہوگا۔

بائیڈن نے پیر کو جمہوریت کے لیے کھڑے ہونے کا عزم ظاہر کرتے ہوئے پابندیاں بتدریج دوبارہ عائد کرنے کی دھمکی دی ہے، جو ایک دہائی پہلے میانمار کے جرنیلوں کی طرف جمہوری اصلاحات کے آغاز اور متعدد سیاسی قیدیوں کی رہائی کے بعد سابق صدر براک اوباما نے اٹھا لی تھیں۔

بائیڈن نے ایک بیان میں کہا: ’اس پیش رفت کو واپس پلٹانے کے ضروری ہو گا کہ مناسب کارروائی کے بعد ہم پابندیوں کے اپنے قانون اور اختیارات پر نظر ثانی کریں۔‘ دوہزار سترہ میں میانمار میں سات لاکھ سے زیادہ روہنگیا اقلیت کو گھروں سے نکال کر ہمسایہ ملک بنگلہ دیش دھکیلنے کے بعد جنرل منگ آنگ ہلینگ سمیت چار فوجی کمانڈروں پر پابندیاں عائد کر دی گئی تھیں۔

امریکی محکمہ خزانہ میں پابندیوں کے سینیئر مشیر پیٹرکیوسک نے کہا ہے کہ بائیڈن انتظامی حکم کے ذریعے میانمار پر نئی پابندیاں لگا سکتے ہیں۔ اس حکم کے تحت میانمار میں ہونے والے واقعات کو قومی ایمرجنسی قرار دیا جائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ اس اقدام سے امریکی انتظامیہ یہ واضح کرنے میں کامیاب ہو جائے گی کہ وہ فوجی بغاوت کو کس طرح دیکھتے ہیں اور وہاں ملک میں کیا دیکھنا چاہتی ہے، اس کے ساتھ ہی انتظامیہ میانمار پر دباؤ بھی ڈال سکے گی۔

انہوں نے مزید کہا کہ بائیڈن انٹرنیشنل ایمرجنسی اکنامک پاورز ایکٹ (آئی ای ای پی اے) کے تحت اس قسم کا انتظامی حکم جاری کرنے کا وسیع اختیار رکھتے ہیں۔

دوسری جانب میانمارمیں امریکی کاروباری سرگرمیوں کی وکالت کرنے والے عہدے دار نے سکیورٹی وجوہات کی بنا پر اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ بعض کاروباری شعبے صورت حال سے نمٹنے کے لیے امریکی انتظامیہ کے اس انداز کی مخالفت کریں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ سرمایہ کار میانمار میں حکومت کا تختہ الٹنے میں ملوث افراد کو ہدف بنا کراور اقتدار پر قبضے کے بعد فوج کی طرف سے اعلیٰ عہدے دار کے طور پر نامزد کیے جانے والے لوگوں پرپابندیاں لگانے کی زیادہ حمایت کریں گے۔ یہ اقدام اشارہ ہو گا کہ میانمار کی نئی انتظامیہ قانونی نہیں۔

دوسری جانب امریکی حکومت کے سابق عہدے داروں اور ماہرین کا ماننا ہے کہ امریکہ کو میانمار میں اقتدار پر قبضہ کرنے والے ان لوگوں پر محدود دسترس حاصل ہے، جن کے طاقت ور مقامی کمپنیوں کے ساتھ مضبوط تعلقات قائم ہیں جب کہ ان کے سمندر پارایسے مفادات کم ہیں جن پر مالی پابندیوں کے ذریعے اثر انداز ہوا جا سکتا ہو۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اوباما کے دور میں مشرقی ایشیا کے لیے امریکہ کے اعلیٰ سفارت کار ڈینیئل رسل کے مطابق گلوبل میگ نٹسکی ہومن رائٹس اکاؤنٹ ایبلٹی ایکٹ کے تحت میانمار کے جرنیلوں پر پہلے ہی پابندیاں عائد ہیں۔ ملک کی فوج پر مزید پابندیوں سے کچھ نہیں ہو گا بلکہ بحران کے حل کے لیے اتحادیوں  کے ساتھ مل کر دوطرفہ طور پر پائیدار اور ماہرانہ سفارت کاری کی ضرورت ہے۔

انڈپینڈنٹ کے مطابق امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے کہا ہے کہ ’امریکہ جمہوریت، آزادی، امن اور ترقی کی خواہشات میں میانمار کے عوام کے ساتھ کھڑا ہے۔ فوج اپنے اقدامات فوری طور پر واپس لے۔‘

برطانوی وزیراعظم بورس جانس نے اپنی ٹویٹ میں کہا کہ ’لوگوں کے ووٹ کا احترام اور سیاسی قیدیوں کو رہا کیا جائے۔‘ جرمن وزیر خارجہ ہیکو ماس نے میانمار کی فوج کے اقدامات کی مذمت کرتے ہوئے کہا: ’فوج نے میانمار میں جمہوری تبدیلی کی طرف جانے والے راستے پر ہونے والی تمام تر پیش رفت کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔‘

عرب نیوز کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ پاکستان کے دفتر خارجہ نے اپنے ردعمل میں تحمل سے کام لینے پر زور دیا ہے۔ دفتر خارجہ کے بیان میں کہا گیا کہ ’ہماری میانمار کے حالات پر گہری نظر ہے۔ ہمیں امید ہے کہ تمام متعلقہ فریق تحمل کا مظاہرہ کریں گے۔ قانون کی عمل داری برقرار رکھی جائے گی، تعمیری انداز میں کام کرتے ہوئے پرامن نتیجہ حاصل کیا جائے گا۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا