صادقین کے اصلی فن پاروں اور نقول میں فرق کیسے کریں؟

پاکستان کے معروف آرٹسٹ صادقین کے بھتیجے کے مطابق ان کے بنائے گئے فن پاروں کی نقول اتنی ہیں کہ ان کا شمار بھی نہیں کیا جا سکتا۔ صادقین کی برسی کے موقعے پر انڈپینڈنٹ اردو سے خصوصی گفتگو میں انہوں نے صادقین کے اصلی اور نقلی فن پاروں میں فرق بتایا۔

  پاکستان کے شہرہ آفاق مصور، خطاط اور نقاش سید صادقین احمد نقوی المعروف صادقین کے  بھتیجے سید سلطان احمد نقوی نے کہا ہے کہ صادقین کی خطاطیوں، پینٹنگز اور دیگر فن پاروں کی نقول ہزاروں میں ہے اور ان کا شمار کرنا بھی مشکل ہے۔ 

انڈپینڈنٹ اردو سے خصوصی گفتگو میں سید سلطان احمد نقوی نے کہا: ’عام طور پر صادقین کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ انہوں نے زندگی میں کم اور مرنے کے بعد زیادہ فن پارے بنائے، جس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے مرنے کے بعد ان کے فن پاروں کی اتنی بڑی تعداد میں نقلیں بنائی گئیں جنہیں شمار بھی نہیں کیا جاسکتا ہے۔ ‘

1987 میں اپنی زندگی کے آخری ایام کے دوران صادقین کراچی کے تاریخی اور ثقافتی ورثے والی عمارت فریئر ہال کی دیوار پر پینٹنگ بنانے کے دوران گر پڑے۔ انہیں علاج کے لیے ہسپتال میں داخل کیا گیا جہاں وہ 10 فروری کو چل بسے۔ انہیں کراچی کے سخی حسن قبرستان میں دفنایا گیا۔  

سید سلطان احمد نقوی کے مطابق صادقین نے 1970 کی دہائی میں سورۂ رحمٰن کی 31 آیات اور چند تفصیلات کے ساتھ ایک سرورق سیمت 32 خطاطیاں کینوس پر بنائیں، جن کی پہلی نمائش کراچی آرٹ کونسل میں منعقد ہوئی۔ اس کے بعد صادقین ان فن پاروں کو لاہور میوزیم لے جایا گیا، جہاں کچھ عرصے تک یہ فن پارے لگے رہے۔ بعد میں صادقین نے ان فن پاروں کو 1974 میں ایڈمنسٹریٹو سٹاف کالیج کو دے دیا، جس کا موجودہ نام نیشنل سکول آف پبلک پالیسی ہے۔  

سید سلطان احمد نقوی نے صادقین کی ان اصلی خطاطیوں کے کینوس پر لیے گئے پرنٹ کا مختلف ممالک میں ہونے والی نمائش کے لیے ایک کتاب میں چھاپی گئی خطاطیوں سے موازنہ کرتے ہوئے بتایا: ’صادقین نے اپنی کسی بھی خطاطی یا پینتنگ پر کبھی دستخط نہیں کیے، جبکہ اس کتاب میں چھپنے والی خطاطیوں پر آپ ان کا نام لکھا دیکھ سکتے ہیں۔ جب کوئی دستخط کرتا ہے تو روانی میں کرتا ہے، جبکہ اگر نام لکھا جائے تو ٹھہرے ہوئے ہاتھ کے ساتھ لکھا جاتا ہے۔ تو ان نقول پر صرف نام لکھا ہوا ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کے مطابق صادقین کے اصلی فن پاروں کا رنگ وقت گزرنے کے ساتھ مدھم پڑگیا ہے جبکہ نقول کے رنگ تازہ ہیں۔ ’اس کے علاوہ اصلی اور نقلی خطاطیوں کے درمیاں بنانے کے تاریخ میں صرف 15 دن کا وقفہ ہے تو سوال اٹھتا ہے کہ صادقین نے 15 دن کے بعد وہی خطاطی دوبارہ کیوں بنائی؟ جس کا مطلب ہے ہے کہ یہ نقلی ہے۔‘

سید سلطان احمد نقوی نے بتایا کہ صادقین کے فن پاروں کی نقلوں کی امریکہ، برطانیہ سمیت کئی ممالک میں گیلیریز میں نمائشیں کی جاتی ہیں مگر مشکل یہ کہ ان کی پینٹنگ یا خطاطی کو غلط ثابت کرنا ذرا مشکل مرحلہ ہے، کیوں کہ پاکستان میں کو سائنسی طریقہ یا کاربن ڈیٹنگ ابھی تک نہیں ہے کہ اس فن پارے کی عمر کا تعین کریں۔

’اگر آپ کسی بھی خطاطی یا فن پارے کے متعلق کہیں کہ اس کی کلر سکیم یا لائین ورک صحیح نہیں ہے، تو اس کو دوسرا قبول کرتا ہے کہ نہیں کرتا یہ بڑا مشکل مرحلہ آجاتا ہے۔ لیکن سورۂ رحمٰن کی خطاطیوں کی پہچان میں آسانی اس لیے ہوئی کیونکہ ان کی نقال کو کتابوں میں چھاپ دیا گیا، جن میں اضافی کام کے باعث وہ پکڑی گئی ہیں۔‘

ان کے مطابق دنیا میں جتنے بھی ماسٹرز فن پارے ہوتے ہیں ان کی نقلیں یا کاپی بنتی ہیں مگر نقل اور کاپی میں دو چیزیں ہوتی ہیں جو اس کو صحیح یا غلط بنادیتی ہیں۔ ’اگر آپ نقل بناکر اس کو نقل ہی کہہ کر دے رہے ہیں یا بیچ رہے ہیں تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ لیکن اگر آپ نقل کو اصل کہیں اور اس کی قیمت بھی اس حساب سے رکھیں، اس پر اصرار کریں اور اس کی نمائش کریں، تو پھر وہ ایک قابل اعتراض بات ہوجاتی ہے بلکہ ایک قسم کا غیر اخلاقی کام ہوجاتا ہے۔‘ 

صادقین کے نایاب فن پاروں کے پرنٹ فیڈرل بی ایریا نصیرآباد کے بلاک 14 میں واقع مرکز اسلامی کی گیلری میں رکھے ہوئے ہیں، جہاں انتظامیہ کے مطابق جلد ہی ان کی نمائش کی جائے گی۔   

سید سلطان احمد نقوی کا مکمل انٹرویو دیکھیے:

 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی آرٹ