کشمیر کے بارے میں عمرانی خیالات

عمران خان نے 5 فروری کو کشمیر میں ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے اپنے معمول کے جوش خطابت میں کشمیریوں کے لیے استصواب رائے کے بعد پاکستان سے آزادی کا اختیار بھی دینے کا اعلان کیا۔

5 فروری کو لاہور میں جماعت اسلامی کی ایک رکن کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہوئے (اے ایف پی)

یہ تحریر آپ مصنف کی آواز میں یہاں سن بھی سکتے ہیں

 


ہم نے حال ہی میں دیکھا کہ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کئی حساس بین الاقوامی معاملات میں اپنے دفتر خارجہ کے مشوروں کو نظر انداز کر کے یا انہیں پڑھے بغیر جو ان کے ذہن میں آتا تھا کہہ دیتے تھے۔

ان کے لیے اس بات کی کوئی اہمیت نہیں تھی کہ ان کے خیالات امریکی خارجہ پالیسی یا اس کے بین الاقوامی مفادات کو کتنا نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ ان کے لیے صرف یہ ضروری تھا کہ وہ بدستور مرکز نگاہ رہیں اور اپنے چاہنے والوں کے دلوں میں رہیں چاہے ان کم علم چاہنے والوں کے ساتھ کتنے ہی جھوٹ بولے جائیں۔ ایک تحقیق کے مطابق صدر ٹرمپ نے اپنے دور صدارت میں تقریبا پچیس ہزار سے زیادہ جھوٹ بولے۔

اب دیکھتے ہیں کہ پاکستان میں صورت حال کیا ہے۔ ہمارے خوش شکل رہنما کے چاہنے والے ان کے سو خون معاف کرنے پر تیار ہیں اور ان کے ہر فرمائے ہوئے بیان کا اندھا دھند دفاع کرتے نظر آتے ہیں۔ ان کے ہر پرانے سیاسی، سماجی، معاشی اور دفاعی خیالات سے روگردانی کے لیے ان کے پاس جواز موجود ہے اور انہیں اپنے جاذب نظر رہنما کی ہر بات میں حکمت کے بیش بہا پہلو نظر آتے ہیں۔

ہمارے وجیہ رہنما نے اس دفعہ اپنے ذریں خیالات کے اظہار کے لیے مسئلہ کشمیر کا انتخاب کیا جس نے وزارت خارجہ کے علاوہ مقتدر قوتوں کو بھی پریشانی میں ڈال دیا۔ اس سے پہلے بھی وہ افغان مجاہدین کی جدوجہد اور القاعدہ کی تربیت کے بارے میں ہماری انٹیلی جنس ایجنسیوں کے کردار کے بارے میں امریکہ میں متنازعہ بیان دے کر پاکستان کو تنقید کا نشانہ بنانے میں کامیاب ہوئے۔ اس کے علاوہ وزیر اعظم نے پاکستانی پارلیمان میں اسامہ بن لادن کو ’شہید‘ کہہ کر پاکستان کے لیے خارجہ معاملات میں مشکلات میں اضافے کا بھی باعث بنے۔ وزیر اعظم کے ان غیرضروری اور غیرذمہ دارانہ بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ یا تو ان کا مطالعہ کم ہے یا وہ اپنے نوٹس ہی نہیں پڑھتے یا وہ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اتنے مقبول ہیں کہ جو چاہے کہہ سکتے ہیں اور کسی قسم کی پارلیمانی یا دیگر پوچھ گچھ ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔

اس دفعہ کشمیر پر متنازعہ بیان دے کر انہوں نے ہماری کشمیر کے مسئلے کے بارے میں مکمل مختلف پالیسی کا اعلان کیا۔ انہوں نے 5 فروری کو کشمیر میں ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے اپنے معمول کے جوش خطابت میں کشمیریوں کے لیے استصواب رائے کے بعد پاکستان سے آزادی کا اختیار بھی دینے کا اعلان کیا۔

ان کے اس اعلان سے ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ انہیں کشمیریوں کی جدوجہد، ان کے پاکستان کے بارے میں جذبات، اقوام متحدہ کی قرار دادوں، ہمارے ریاستی بیانیے اور اصولی موقف کے بارے میں ناقص علم ہے۔ انہیں اس بات کی بھی خبر نہیں کہ ہزاروں کشمیری اپنی جانیں پاکستان میں شامل ہونے کے لیے قربان کر چکے ہیں اور ان کے کفن پاکستان کے جھنڈے میں لپٹے ہوئے ہوتے ہیں۔ کیا وہ یہ قربانیاں پاکستان میں شامل ہونے کے لیے دے رہے ہیں یا استصواب رائے میں پاکستان میں شامل ہونے کی خواہش کے اظہار کے بعد پاکستان سے آزادی کے لیے؟

وزیر اعظم کے اس غیر متوقع بیان کے بعد وزارت خارجہ فورا حرکت میں آئی اور اپنے پریس ریلیز میں انہوں نے کشمیر کے بارے میں پاکستان کے اصولی موقف کا اعادہ کیا۔ لیکن وزیراعظم کے چاہنے والوں اور حکومتی ترجمانوں کی فوج ظفر موج نے اس قدم کو آئین کی متعلقہ شقوں کا حوالہ دے کر اس غیر دانش مندانہ اعلان کا دفاع کرنا شروع کر دیا ہے۔

یہ ایک خطرناک اعلان تھا جس کے کشمیریوں کی جدوجہد کو نقصان پہنچانے کے علاوہ پاکستان کی سلامتی کے لیے بھی سنگین مضمرات ہو سکتے ہیں۔ ہمارے آئین کی شق نمبر 257 کسی طرح بھی کشمیر کو آزادی دینے کی قطعی بات نہیں کرتی ہے۔ یہ شق کشمیر کی پاکستان کے ساتھ شمولیت کے فیصلے کے بعد کے انتظامات کی بات کرتی ہے جس میں کشمیر پاکستان کا صوبہ بننے یا پاکستان کے زیر انتظام ایک خودمختار علاقہ کے بارے میں تصور ہے۔ شاید یہ تصور بھارت کے آئین کی جموں و کشمیر کے بارے میں شق 370 کو سامنے رکھتے ہوئے ہمارے آئین میں شامل کیا گیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اگر ہمارا مقصد کشمیر کو آزادی ہی دینی ہے تو پھر استصواب رائے پر اصرار کی ضرورت ہی نہیں رہتی۔ اگر استصواب رائے میں کشمیری پاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کرتے ہیں تو یہ کیسی غیر دانشمندانہ اور خطرناک بات ہوگی کہ ہم انہیں آزاد مملکت کا درجہ دے دیں۔

کیا اس فیصلے سے ہمارے لیے گلگت بلتستان میں سنجیدہ مسائل پیدا نہیں ہو جائیں گے۔  کیا نئی  کشمیری ریاست گلگت بلتستان کی اپنی آزاد مملکت کے علاقے میں شمولیت کا تقاضہ نہیں کرے گی۔ اس مطالبے کے ماننے سے کیا ہم چین کے ساتھ اپنا سیاسی اور معاشی تعاون جاری رکھ سکیں گے؟ بلکہ عین ممکن ہے کہ ہمارے نئی کشمیر ریاست کے ساتھ فوراً نئے علاقائی تنازعہ کھڑے ہو جائیں۔

پاکستان بننے کے بعد بہت ساری ریاستیں جن میں سوات، بہاولپور، چترال، خاران اور مکران وغیرہ پاکستان کا حصہ بنیں۔ کیا کشمیر کو آزاد ریاست کا درجہ دینے سے ان ریاستوں میں رہنے والوں کے دلوں میں ایسی ہی خواہش نہیں پیدا ہوگی؟ ہمیں پہلے ہی بلوچستان میں ایسی تحریک کا سامنا ہے اور اس کے نتیجے میں کافی جانی و مالی نقصان ہو چکا ہے۔ کیا ہم علیحدگی پسند قوتوں کو مزید تقویت دینا چاہتے ہیں۔

اگر اس ممکنہ آزادی کے اعلان کا مقصد بھارت کے ساتھ امن مذاکرات کو آگے بڑھانا ہے تو اس کے خدوخال صاف ستھرے طریقے سے واضح کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ بات قابل فہم نہیں کہ بھارت استصواب رائے کے لیے تیار ہوگا۔

ایسی صورت میں کشمیر کی آزادی کی بات کر کے کشمیریوں کی قربانیوں اور موجودہ جدوجہد کو کمزور کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ ویسے بھی موجودہ حالات میں مودی حکومت کے جارحانہ عزائم اور اعلانات کے پس منظر میں امن مذاکرات کا عندیہ بھارت میں کمزوری کی نشانی سمجھا جائے گا۔

وزیراعظم کو چاہیے کہ عوام کے دلوں سے جڑے ان سنجیدہ سلامتی کے معاملات پر اعلانات کرنے سے پہلے ان کی گہرائیوں کو سمجھیں نہ کہ مستقبل قریب میں پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں انتخابات کو جیتنے کے لیے اس قسم کے غیر دانش مندانہ اعلانات کریں۔

اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ ان گھمبیر مسائل پر وزارت خارجہ کی مہیا کردہ معلومات کو احتیاط سے پڑھیں اور انہیں سمجھنے کی کوشش کریں۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کے ذاتی خیالات پر مبنی ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ