لاپتہ افراد کا دھرنا: ’بچے کی خاطر میں مرنے تک یہیں رہوں گی‘

ایک ہفتے سے جاری اس احتجاج میں ملک کے مختلف شہروں سے تعلق رکھنے والے ایسے مرد، خواتین اور بچے شریک ہیں جن کا کوئی نہ کوئی رشتہ دار یا عزیز لاپتہ ہے۔

اسلام آباد میں لاپتہ افراد کے اہل خانہ نے احتجاج کرتے ہوئے کہا ہے کہ  وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات کیے بغیر دھرنا ختم نہیں کیا جائے گا۔

ایک ہفتے سے جاری اس احتجاج میں ملک کے مختلف شہروں سے تعلق رکھنے والے ایسے مرد، خواتین اور بچے شریک ہیں جن کا کوئی نہ کوئی رشتہ دار یا عزیز لاپتہ ہے۔

ابتدا میں دھرنا اسلام آباد کے نیشنل پریس کلب کے سامنے دیا گیا تاہم دو روز قبل احتجاج کرنے والوں نے ڈی چوک کا رخ کیا اور اس مقام کو آنے والی سڑکوں کو بند کر دیا۔

بدھ کو سب سے پہلے وزیر داخلہ شیخ رشید نے احتجاج کرنے والوں کو اپنے دفتر بلایا لیکن بات نہ بنی۔ ان سے مل کر واپس آنے والے افراد بہت مایوس دکھائی دیے۔

اسی شام وفاقی وزیر قانون بیرسٹر فروغ نسیم نے احتجاج کرنے والوں سے ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا لیکن دھرنے میں بیٹھے  لوگوں نے ان کے دفتر جانے سے انکار کر دیا جس کے بعد وفاقی وزیر انہیں ملنے ڈی چوک آئے۔

احتجاج کرنے والوں نے وفاقی وزیر کو بتایا کہ دھرنا وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات کے بغیر ختم نہیں کیا جائے گا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

لاپتہ افراد کا سراغ لگانے کے لیے 2011 میں قائم کیے گئے کمیشن کے مطابق ابھی تک سات ہزار افراد کے لاپتہ ہونے سے متعلق درخواستیں موصول ہوئی ہیں جن میں سے پانچ ہزار افراد واپس آ چکے ہیں، تاہم لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے سرگرم کارکن ان اعداد و شمار سے اتفاق نہیں کرتے۔

ابتدائی طور پر ڈی چوک میں جاری احتجاج بلوچستان سے تعلق رکھنے والے لاپتہ افراد کے رشتہ داروں نے شروع کیا تاہم اب اس میں پاکستان کے دوسرے کئی علاقوں سے تعلق رکھنے والے بھی شامل ہو گئے ہیں۔

احتجاج میں حصہ لینے والے رات بھر ڈی چوک میں سڑک پر گزارتے ہیں جو اسلام آباد کی سردی میں بہت مشکل ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان