سوات میں معذور شخص چار سال تک گدھوں کے ساتھ  بندھا رہا

سوات کی تحصیل بحرین میں پولیس اور انتظامیہ نے ایک ایسے شخص کو بازیاب کروایا ہے، جس کے والد نے اسے گدھوں کے اصطبل میں زنجیروں سے باندھ رکھا تھا۔

’وہ بول سکتے تھے اور نہ چل پھر سکتے تھے لیکن ان کی اشاروں میں کی گئیں باتوں سے اندازہ ہوا کہ وہ چار سال تک کس کرب سے گزرے ہوں گے۔‘

خیبر پختونخوا کے ضلع سوات کی پولیس نے قوت گویائی سے محروم 30 سالہ معراج الدین کو بازیاب کرایا ہے، جن کو ان کے گھر والوں نے گدھوں کے اصطبل میں چار سال سے زنجیروں سے باندھ رکھا تھا۔ پولیس کے مطابق معراج ذہنی مسائل کا شکار ہیں۔

یہ واقعہ سوات کی تحصیل بحرین کے ایک نواحی گاؤں میں پیش آیا۔ بحرین کے اسسٹنٹ کمشنر ہدایت اللہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ان کے دفتر کو تین دن پہلے اطلاع ملی تھی کہ اس گاؤں میں ایک شخص کو گذشتہ چار سالوں سے گدھوں کے اصطبل میں زنجیروں سے باندھ کر قید میں رکھا گیا ہے۔

’ہم نے ٹیمیں تشکیل دے کر پولیس کے ساتھ گھر پر چھاپہ مارا تو اصطبل میں معراج کو زنجیروں میں جھکڑا پایا، جہاں ایک طرف گدھے بندھے ہوئے نظر آئے اور دوسری طرف دیگر جانور بھی موجود تھے۔ یہ شخص گوبر کے ڈھیر پر نیم برہنہ حالت میں بیٹھا گوبر کھا رہا تھا۔‘

ہدایت اللہ کے مطابق مذکورہ شخص کے گھر والوں نے بتایا کہ معراج  کو ذہنی مسئلہ درپیش ہے اور اگر انہیں نہ باندھا جائے تو یہ لوگوں اور خود کو نقصان پہنچاتے ہیں۔

’گھر کی حالت سے لگ رہا تھا کہ یہ نہایت غریب خاندان ہے۔ معراج کے والد نے دو شادیاں کی ہوئی ہیں جب کہ ان کے دیگر تین بھائی بھی قوت گویائی سے محروم اور اپنی والدہ کے ساتھ ایک کمرے میں رہ رہے ہیں۔‘

تاہم ان کے والد اپنی دوسری اہلیہ کے ساتھ  گھر کے ساتھ جڑے ایک دوسرے کمرے میں رہتے ہیں۔ دوسری اہلیہ سے ان کے بچے نارمل ہیں۔

ہدایت اللہ نے بتایا: ’ضلعی انتظامیہ نے متاثرہ شخص کے لیے گھر کی چھت پر ایک خیمہ لگایا ہے اور انہیں کپڑے اور راشن بھی فراہم کیا ہے۔ ضلعی انتظامیہ کی طرف سے جتنا ہو سکے گا وہ اس خاندان کی مدد کریں گے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ذہنی مسائل کے بارے میں ہدایت اللہ نے کہا کہ ضلعی انتظامیہ نے معراج کے علاج معالجے کا انتظام بھی کیا ہے اور ان کے والد کے خلاف پولیس نے مقدمہ درج کر لیا ہے۔

ضلعی انتظامیہ کو معذور شخص کی حالت زار کے بارے میں اطلاع دینے والے مقامی صحافی خورشید احمد حقانی نے بتایا کہ یہ آٹھ افراد پر مشتمل گھرانہ انتہائی مشکل زندگی گزار رہا ہے۔

ڈاکٹرشاہ محمد نے، جن کا تعلق بھی اسی علاقے سے ہے، بتایا کہ ’متاثرہ شخص کا چیک اپ کیا گیا ہے، تاہم اب ان کو باقاعدہ طور مینگورہ یا پشاور لے جا کر علاج کی ضرورت ہے کیونکہ ان کو شدید ذہنی مسئلہ درپیش ہے اور اس کا علاج مہنگا بھی ہے۔‘

’نفسیاتی مسئلے کو سنجیدہ نہیں لیا جاتا‘

مردان میڈیکل کمپلیکس کے شعبہ نفسیات میں خدمات سر انجام دینے والے ڈاکٹر اعزاز جمال نے بتایا کہ ہمارے معاشرے میں نفسیاتی مسائل کو شرمندگی کے ساتھ جوڑ کر ایک دھبہ بنا دیا گیا ہے۔

’پہلے تو نفسیاتی مسائل کا شکار شخص ڈاکٹر کے پاس نہیں جاتا کیونکہ اس کے ذہن میں ہوتا ہے کہ اگر وہ ڈاکٹر کے پاس چلا گیا تو معاشرے میں اسے پاگل کہا جائے گا حالانکہ ایسا ہرگز نہیں۔ نفسیاتی مسائل قابل علاج ہیں اور اس کا بروقت علاج ہی واحد حل ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان