دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت میں حزبِ اختلاف کہاں ہے؟

بھارت تاریخ کے عجیب دور سے گزر رہا ہے۔ حکومت جو چاہتی ہے من مانی کر لیتی ہے مگر حزبِ اختلاف کا کہیں سراغ نہیں ملتا۔

بھارتیہ جنتا پارٹی کا ا س وقت بھارتی جمہوریت پر مکمل غلبہ ہے (اے ایف پی)

بھارت جیسا جمہوری ملک اس وقت بڑی عجیب صورت حال سے گزر رہا ہے۔ نظریاتی و سیاسی اختلافات جمہوریت کا حسن سمجھے جاتے ہیں اور حکومت اور حزب اختلاف جمہوری سیاست کے اہم ستون، مگر ہندوستان میں حزبِ اختلاف کا سراغ کہیں دور دور تک نظر نہیں آ رہا ہے۔

حکومت وقت کوئی بھی فیصلہ بغیر کسی ہچکچاہٹ کے کر لیتی ہے۔ مثال کے طور پر 2019 میں جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت واپس لی گئی، 19 میں ہی شہریت ترمیمی قانون آیا، سال 2020 میں زراعت کے متعلق تین قوانین منظور کرائے گئے۔

ان تینوں بڑی پیش رفت پر بھی حزبِ اختلاف گم نظر آئی۔ مذکورہ بلز پاس کرنے والے دنوں میں پارلیمنٹ کے اندر تو اس دن حزبِ اختلاف والے بولتے نظر آتے ہیں لیکن بعد میں بالکل غائب۔ ایسا لگتا ہے جیسے فرینڈلی میچ ہو رہا ہے۔

370 کے خاتمے کے بعد تو نئی دہلی نے احتجاج کا موقع ہی نہیں دیا، پورے جموں و کشمیر کو کھلی جیل بنا دیا گیا، کووڈ کے دوران بھی ڈھیل نہیں دی گئی۔ شروع میں حزبِ اختلاف کے کسی رہنما کو جموں و کشمیر کا دورہ بھی نہیں کرنے دیا۔ ایسا لگتا تھا یہ ہندوستان کی نہیں، پتہ نہیں کون سے ملک کی حزبِ اختلاف ہے۔

پھر یونیورسٹیوں کی فیسوں میں اندھا دھند اضافہ کیا گیا جس کے خلاف جواہر لال نہرو یونیورسٹی نے بھر پور مزاحمت کی، پولیس کے تشدد کا نشانہ بنے یہاں تک کہ انہیں وزیر داخلہ امت شاہ کی طرف سے اربن نکسل کے لقب سے نوازا گیا، لیکن حزبِ اختلاف کے کان پر اس وقت بھی جوں تک نہ رینگی۔

شہریت ترمیمی قانون کے خلاف جامعہ ملیہ اسلامیہ سے احتجاج کی شروعات ہوئی جو طلبہ نے کی۔ بعد میں شہریوں نے شاہین باغ دہلی میں دھرنا دیا جو پورے ملک میں پھیلا۔ بالآخر مارچ 2020 میں کرونا کی وجہ سے یہ دھرنا بھی ختم ہو گیا۔ کسانوں کے احتجاج کو سات مہینے ہونے کو ہیں۔ پورے ہندوستان کے کسان حکومت کی زرعی اصلاحات سے نالاں ہیں۔ کہنے کو حزبِ اختلاف کی سیاسی جماعتیں ان سبھی احتجاجوں میں مزاحمتیوں کے ساتھ ہیں لیکن عملی طور پر وہ کہیں نظر نہیں آ رہے۔

مرکزی سطح پر حزبِ اختلاف کی سب سے بڑی جماعت انڈین نیشنل کانگریس ہے جو اپنی بقا کی جنگ لڑنے میں مصروف ہے۔ حکومت و حکومتی پالیسیوں سے لڑنا تو کجا اس وقت یہ اپنے اندر سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

23 جی کیا ہے؟

پچھلے سال اگست میں کانگریس کے 23 سینیئر رہنماؤں نے سونیا گاندھی کو ایک خط لکھ کر پارٹی کی لگاتار گراوٹ کی نشاندہی کی تھی اور پالیسیوں میں بہتری لانے کا کہا تھا۔ اس کے بعد سے میڈیا میں کانگریس کا یہ گروہ 23 جی یعنی (گروپ 23) کے نام سے مشہور ہوا۔

غلام نبی آزاد کی راجیہ سبھا سے سبک دوشی کے بعد یہ گروپ ایک بار پھر متحرک ہوا ہے۔ جی 23 ان ارکان پر مشتمل ہے، جن میں کانگریس کے سینیئر ترین رہنما اور ان میں کئی سابق وزیر اور وزرائے اعلیٰ شامل ہیں۔ بعض تو پارٹی کے اہم عہدوں پر بھی تعینات رہے۔23  جی کی منفرد بات یہ ہے کہ اس گروپ کا ہر رکن اپنے علاقے یا ریاست میں اچھا خاصا مقام و اثر رسوخ رکھتا ہے۔ مثال کے طور پر غلام نبی آزاد جموں و کشمیر میں صرف کانگریس ہی نہیں بلکہ سیاسی حلقوں میں عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں اور باقی والے بھی اسی طرح ہی ہیں۔

راجیہ سبھا سے سبک دوش ہونے کے بعد آزاد پہلی بار جموں و کشمیر گئے۔ 28 فروری کو جموں میں گاندھی گلوبل فیملی ٹائٹل سے ایک تقریب منعقد ہوئی جس میں23  جی کے کچھ رہنما جیسا کہ سبل، ہوڈا، ببر، آنند شرما اور غلام نبی آزاد وغیرہ شریک تھے۔ اس تقریب میں ان رہنماؤں کی طرف سے پارٹی ہائی کمان پر ایک بار پھر تنقید دیکھنے کو ملی۔ کانگریس کی حالیہ پالیسیوں پر کھل کر تنقید کی گئی۔ آنند شرما نے کہا کہ کانگریس کو غلام نبی آزاد کو پارلیمانی سیاست سے ریٹائر نہیں کرنا چاہیے تھا۔ انہیں اور موقع دے کر ان کے سیاسی تجربے سے فائدہ اٹھایا جاتا تو بہتر ہوتا۔ آزاد نے وزیراعظم مودی کی تعریف کی۔

زعفرانی پگڑیاں

اس سے پہلے آزاد کے راجیہ سبھا میں الوداعی موقعے پر نریندر مودی بھی ان کی جم کر تعریف کر چکے ہیں۔ جموں میں تقریب کے دوران حیران کن طور پر ان رہنماؤں نے زعفرانی پگڑیاں پہنی ہوئی تھیں جس کو بھگوا علامت سمجھا جاتا ہے۔ کانگریس کی اعلیٰ قیادت نے 23 جی کے حالیہ اقدام پر تبصرہ کرنے سے گریز کرتے ہوئے آنے والے دنوں میں پانچ ریاستوں میں انتخابی سرگرمیوں پر فوکس رکھنے کو ترجیح دی ہے۔ اعلیٰ قیادت جتنے ہی پردے ڈال لے لیکن دال میں کچھ کالا ضرور ہے۔ 23  جی ہریانہ میں کروکشیٹر کے مقام پر ایک اور ایونٹ کرنے کا منصوبہ بھی بنا رہی ہے۔

یہ تو رہی حال میں کانگریس کی اختلافات کی کتھا لیکن حقیقت یہ ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کی سیاست نے حزبِ اختلاف کو انتخابی سیاست کے علاوہ نظریاتی طور پر بھی کافی کمزور کر دیا ہے۔ کانگریس جس طرح سے سیکیولرازم کے گن گایا کرتی تھی اب اس میں بتدریج کمی آ رہی ہے۔ اب راہل گاندھی بھی مودی کی طرح ووٹروں کو کھینچنے کے لیے مذہبی رسومات کا دکھاوا کرتے نظر آتے ہیں۔

ادھر بائیں بازو و دوسری سیاسی جماعتوں کی حالت زار اور بھی دلچسپ ہے۔ ان کی طرف سے جس طرح ڈھول کی تھاپ پر انقلاب کے نعرے لگا کرتے تھے وہ اب سست پڑ گئے ہیں۔ اسی طرح کچھ کو چھوڑ کر علاقائی پارٹیاں بھی ماند پڑ گئی ہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ حکومت کی طرف سے مخالفین پر سیاسی مقدمات بنانا بھی ہیں۔ مثلاً یوپی میں سماج وادی پارٹی کے اعظم خان، بہار میں آر جے ڈی کے لالو، جموں وکشمیر میں نیشنل کانفرنس کے فاروق عبداللہ وغیرہ۔ اس وقت عوام ایک پارٹی کے رحم کرم پر ہیں۔ لوک سبھا میں عددی اعتبار سے حکمراں جماعت بی جے پی واضح برتری لیے بیٹھی ہے۔

اس صورت حال کو دیکھ کر غالب کا یہ شعر یاد آ رہا ہے:

کوئی امید بر نہیں آتی
کوئی صورت نظر نہیں آتی 

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا