دفعہ 370 کی منسوخی کا مودی کو کتنا سیاسی فائدہ ہوا؟

یہ بات طے ہے کہ بھارت کی جنتا کے لیے جموں و کشمیر کی خصوصی پوزیشن کا رہنا یا نہ رہنا اہمیت نہیں رکھتا اور اس نے بی جے پی کا اس حوالے سے پراپیگنڈا مسترد کر دیا ہے۔

وزیر اعظم نریندر مودی الیکشن مہم کے دوران کشمیر معاملے کو کیش کرانے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن عوام اس پر کان نہیں دھر رہی۔

حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی نے پارلیمانی انتخابات برائے 2019 کے اپنے انتخابی منشور میں جموں و کشمیر کو آئین ہند کے آرٹیکل 370 کے تحت دی جانے والی خصوصی مراعات کو واپس لینا بھی شامل کر رکھا تھا۔

بھاری اکثریت سے الیکشن جیتنے کے بعد بالآخر پانچ اگست، 2019 کو جموں و کشمیر کو آئین ہند میں خصوصی پوزیشن واپس منسوخ کر دی گئی۔ یہ اقدام پورے ہندوستان کے لیے چونکا دینے والا تھا۔ چونکا دینے والا اس لیے کیونکہ یہ کسی کو بھی (لیفٹ ہو یا رائٹ) توقع نہیں تھی کہ یہ حکومت یک جنبش قلم یہ سب کر دے گی۔

اس سے پہلے کانگریس پارٹی کے مختلف ادوار میں 370 کو آئینی ترمیم کے ذریعے کمزور کیا جاتا رہا لیکن کانگریس نے کبھی خصوصی پوزیشن کو بالکل ختم کرنے کی بات نہیں کی۔ ماضی میں جموں و کشمیر کے حوالے سے جو پیش رفت ہوتی رہی اس میں مقامی مین سٹریم پارٹیوں کی ہاں ضروری سمجھی جاتی تھی۔ ایک اگر انکار کر دے تو دوسری ساتھ ہو جاتی تھیں۔ اس بار بی جے پی کا یہ اقدام اس لیے بھی منفرد ہے کہ حریت کانفرنس و آزادی پسند جماعتوں کی طرح سبھی قومی دھارے کی سیاسی جماعتیں بھی نظر انداز کر دی گئیں۔

جموں و کشمیر کی خصوصی پوزیشن کی منسوخی سے پہلے بی جے پی نے اس مہم کو انتخابی جلسے جلوسوں کے دوران بڑے زور وشور سے چلایا اور خصوصی درجہ ہٹائے جانے کے وقت بھی ان کا خیال تھا کہ اب بھارت کی مختلف ریاستوں میں ہونے والے انتخابات میں اس کو فائدہ ملے گا۔ پانچ اگست، 2019 کے بعد مہاراشٹر بھارت کی پہلی ریاست تھی جہاں اسمبلی انتخابات ہوئے۔ 288 سیٹوں والی مہاراشٹر لیجسلیٹیو اسمبلی کے لیے 21 اکتوبر، 2019 کو انتخابات ہوئے۔ اس سے پہلے ریاست میں بی جے پی و شیو سینا کی اتحادی حکومت تھی۔ یہ انتخابات جموں و کشمیر میں 370 کی منسوخی کے ٹھیک اڑھائی مہینے بعد ہوئے تھے۔

بی جے پی نے جم کر 370 ختم کرنے کی اپنی حکومت کی تعریفیں کیں لیکن مہاراشٹر کے عوام نے اس بات کو زیادہ اہمیت نہیں دی۔ اس کے برعکس لوگوں کی توجہ معیشت، مہنگائی و بے روزگاری جیسے ایشوز پر مرکوز رہی۔ نتیجتاً بی جے پی شیو سینا اتحاد کے نو ریاستی وزرا بھی اپنی سیٹیں ہار گئے۔ الیکشن کے بعد کٹر شیو سینا بھی سے الگ ہو گئی اور سیکیولر کانگریس اور این سی پی کے ساتھ مل کر مہا وکاس اگاڑی نامی اتحاد بنا کر نیا حکومتی اتحاد بنا لیا۔ اس وقت بی جے پی مہاراشٹر میں حزب اختلاف میں بیٹھی ہے۔

مہاراشٹر کے بعد دوسرے انتخابات بھارت کی راجدھانی یونین ٹریٹری دہلی میں ہوئے۔ 70 نشستوں والی دہلی لیجیسلیٹیو اسمبلی کے لیے آٹھ فروری، 2020 کو الیکشن ہوئے۔ ان انتخابات میں بھی بھارتیہ جنتا پارٹی نے جموں و کشمیر سے 370 و 35اے ہٹائے جانے کے چرچے کیے۔ خصوصی پوزیشن ہٹائے جانے کی تمام فضیلتیں بیان کیں لیکن پھر بھی دہلی کے عوام نے ووٹ اروند کیجریوال کی عام آدمی پارٹی کو دیے۔ اروند کیجریوال کی جماعت 62 سیٹیں جیت کر دوبارہ حکومت بنانے میں کامیاب رہی۔

اب بھارت کی ریاست بہار میں اسمبلی انتخابات ہونے جا رہے ہیں۔ یہ انتخابات تین مراحل میں ہوں گے۔ پہلے مرحلے کے لیے ووٹ 28 اکتوبر، دوسرے کے لیے تین نومبر جبکہ تیسرے کے لیے سات نومبر کو ہوں گے۔ جمعے کو بہار میں ایک انتخابی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نرینندر مودی نے ایک بار پھر آرٹیکل 370 کی منسوخی کا سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کی۔ بہار کے ساسارم میں اپنی تقریر کے دوران انہوں نے کہا کہ ’حزب اختلاف کی سیاسی جماعتیں چاہتی ہیں وہ اگر اقتدار میں آگیں تو جموں و کشمیر میں آرٹیکل 370 دوبارہ بحال کریں گی۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

صرف یہی نہیں نرینندر مودی نے بہار کے لوگوں کو اشتعال دلانے کی کوشش بھی کی کہ ایسی بیان بازی کر کے ان جماعتوں کی اتنی ہمت کہ وہ ووٹ بھی بہاریوں سے مانگ رہی ہیں، کیا یہ آپ کی توہین نہیں ہے؟ اس وقت بہار میں مودی کی پارٹی اور جنتا دل یونائیٹڈ کی اتحادی حکومت ہے۔ جنتا دل یونائٹڈ کے چیف و وزیر اعلیٰ بہار نتیش کمار بھی تقریر کے دوران سٹیج پر موجود تھے۔

یہاں دلچسپ بات یہ ہے کہ مودی کے ساتھ بہار میں اتحاد کے باوجود گذشتہ سال جنتا دل یونائیٹڈ نے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں (لوک سبھا اور راجیہ سبھا) میں جموں و کشمیر کی منسوخی کی مخالفت کرتے ہوئے حکومت کے خلاف ووٹ دیے تھے۔ مودی و نتیش کو بہار میں لالو پرساد یادیو کی راشٹریہ جنتا دل، انڈین نیشنل کانگریس و بائیں بازو کی دیگر جماعتوں کی طرف سے بنائے گئے مہا گٹھ بندن کا شدید سامنا ہے۔

بہار میں حکومت کون بنائے گا یہ الیکشن کے بعد ہی پتہ چلے گا لیکن یہ بات طے ہے کہ مہاراشٹر و دہلی کی طرح بہار کے لوگ بھی 370 والی بات پر کان نہیں دھر رہے۔ لوگوں کے اصل مسائل کمزور معیشت کی وجہ سے بے روزگاری اور مہنگائی ہیں۔

اور یہ بات طے ہے کہ بھارت کی جنتا کے لیے جموں و کشمیر کی خصوصی پوزیشن کا رہنا یا نہ رہنا اہمیت نہیں رکھتا۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کے آرٹیکل 370 پر بنائے گئے پراپیگنڈوں کو عوام نے مسترد کر دیا ہے۔ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا