لاہور: شاہی محلے کے بچوں کے لیے قائم تعلیم و تربیت کا سینٹر

ایک نجی ادارے کے زیر انتظام اس مرکز میں شاہی محلے کے بچوں کو گھر جیسا ماحول اور تعلیم دی جارہی ہے تاکہ وہ معاشرے کے فعال شہری بن سکیں۔  

لاہور میں اپنی نوعیت کا پہلا ایسا سینٹر قائم ہے جہاں شاہی محلے کے ایسے بچوں کو تعلیم دی جاتی ہے جنہیں ولدیت کے کاغذات نہ ہونے کی وجہ سے دوسرے عام سکولوں میں داخلہ نہیں ملتا۔  

مونی روڈ پر قائم اس سینٹر میں بچوں کو گھر جیسا ماحول اور تعلیم دی جا رہی ہے، فنی مہارت سکھائی جاتی ہے اور ان کے کھانے پینے اور اکثر رہائش کا بھی انتظام کیا جاتا ہے۔ سینٹر میں سو سے زائد بچے اور بچیاں زیر تعلیم ہیں۔

سینٹر کی سربراہ زرقا بیگم کے مطابق اس علاقے میں بیشتر خاندان وہ ہیں جو جنرل ضیا الحق کے دور میں ٹیکسالی آپریشن کے بعد یہاں آ کر آباد ہوئے تھے۔ ان کا کہنا تھا: ’وہاں بھی صورت حال ایسی ہے اور یہاں بھی حالات مختلف نہیں ہیں۔ یہ علاقہ شاہی قلعے سے ملحقہ تھا اسی لیے اسے شاہی محلہ بھی کہا جاتا تھا۔‘

انہوں نے بتایا کہ انہوں ٹیکسالی اور اس کی قریبی آبادی میں سروے کیا تو معلوم ہوا کہ یہاں کئی ایسے بچے ہیں جن کی ولدیت کے کاغذات نہیں جس کی وجہ سے زیادہ عمر ہونے کے باوجود وہ کہیں تعلیم حاصل کرتے ہیں اور نہ ہی ان کی کوئی دیکھ بھال کرتا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ عدم توجہ کے باعث یہ بچے منشیات کے استعمال اور دوسرے کئی برے کاموں کے سوا کچھ نہیں کرتے تھے۔

وہ بتاتی ہیں کہ جب انہوں نے معلومات جمع کیں تو علم ہوا کہ بیشتر بچوں کو یہ بھی معلوم نہیں کہ ان کے والدین کون ہیں اور کہاں ہیں۔ پھر انہوں نے اخوت فاؤنڈیشن اور مقامی افراد کے تعاون سے ٹیکسالی کے سامنے ایک سینٹر قائم کیا جہاں بچے اور بچیوں کی تعلیم وتربیت کا آغاز کیا۔

زرقا بیگم کے خیال میں اس سینٹر کے قیام سے ایسے بچوں کو معاشرے کا فعال شہری بنانے میں مدد مل رہی ہے جو اپنے آپ کو بھی کچھ نہیں سمجھتے تھے۔

انہوں نے بتایا کہ یہاں بچوں کو ماہر نفسیات اور اعلیٰ تعلیم یافتہ اساتذہ کی زیر نگرانی پڑھایا جاتا ہے اور کونسلنگ کر کے باعزت روزگار کی تربیت دی جا رہی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے کہا کہ اس نوعیت کا یہ پہلا مرکز ہے تاہم ایسے مزید مراکز بنانے پر بھی حکمت عملی بنائی جا رہی ہے۔

لاہور یونیورسٹی آف مینیجمنٹ سائنسز(لمز) کی کچھ طالبات نے بھی محلے کے ماحول اور یہاں کے بچوں پر تحقیق کی۔ اب وہ رضاکارانہ طور پر اپنی خدمات دینے یہاں آتی ہیں۔

ایسی ہی ایک طالبہ ماہم نے کہا: ’جیسے ہی یہاں مغرب ہوتی ہے تو ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ اب یہ جگہ بچوں کے لیے نہیں ہے، اور بچوں کو بھی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کون الگ الگ لوگ آ رہے ہیں اور یہاں کیا سرگرمیاں ہو رہی ہیں، جیسے منشیات کا استعمال اور سیکس ورک وغیرہ۔ ان بچوں کی شام کی زندگی اور صبح کی زندگی میں بہت فرق ہے۔‘

ساتھی طالبہ تحریم نے کہا کہ پہلے انہیں محسوس ہوتا تھا کہ یہ جگہ بچوں کے لیے معقول نہیں ہے مگر آہستہ آہستہ انہوں نے اس تعلیمی مرکز کا اثر ہوتے دیکھا۔

وہ کہتی ہیں بچوں کے پاس اب دن میں ایک محفوظ جگہ ہے جہاں وہ پڑھتے اور دیگر کارآمد سرگرمیوں میں آگے ہوتے ہیں اور انہیں بچے ہونے کا موقع ملتا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان