خیبر پختونخوا کے 13 دیہات جن کے رہائشی دو اضلاع میں بٹ گئے ہیں

خیبر پختونخوا کے 13 دیہات حدبندی مقرر نہ ہونے کی وجہ سے چارسدہ اور مہمند میں بٹ گئے ہیں اور یہاں ترقیاتی کاموں میں بھی تاخیر ہو رہی ہے۔

گورنمنٹ پرائمری سکول سروکلے کی ویران عمارت (تصاویر: عبدالستار)

خیبر پختونخوا کے ضلع چارسدہ کی تحصیل شبقدر اور ضلع مہمند کی تحصیل یکہ غنڈ کے درمیان سرحدی حدود کے حوالے سے کافی عرصے سے تنازع چلا آرہا ہے جس میں 36 ہزار  کی آبادی پر مشتمل 13 دیہات کے رہائشی متاثر ہورہے ہیں۔

مقامی افراد کے مطابق ان دیہات کو ابھی تک نہ مکمل طور پر ضلع چارسدہ کی انتظامیہ کے حوالے کیا گیا ہے اور نہ ضلع مہمند کے انتظامیہ کو ذمہ داری دی گئی ہے۔ پولیس، ریوینیو اور عدالتی نظام ضلع چارسدہ کی انتظامیہ کے پاس ہے جبکہ محکمہ تعلیم، صحت اور دوسرے شعبے ضلع مہمند کی انتظامیہ سنبھالتی ہے۔

جن 13 دیہات کی حدبندی نہیں ہو سکی ہے ان میں حفیظ کور، کورونہ کالونی، لطیف کور، سرو کلے، دریاب کورونہ، امیر خان کلے،کیرڑہ کلے، سرہ شاہ، متین کور، شنے غنڈی، ہاشم علی کلے، اسلام شاہ کلے اور کس کورنہ شامل ہیں۔

متاثرہ دیہات سرو کلےکے رہائشی حبیب رسول نے کہا کہ علاقے میں ترقیاتی کام نہ ہونے سے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے وہ پاکستان میں نہیں کسی اور ملک میں رہ رہے ہیں۔ ’ابھی بھی ہمارے راستے، گلیاں اور محلے کچے پڑے ہوئے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ چار سو سے زائدگھرانوں کی آبادی کے لیے بنایا گئے لڑکوں اور لڑکیوں کے مڈل سکولوں، جو کہ دو بم دھماکوں کے بعد مکمل طور پر تباہ ہوچکے تھے، کی تقریباً نو سال بعد تعمیر تب دوبارہ شروع ہوئی جب طالب علموں کی تعداد 50 تک آگئی۔

حبیب رسول نے انڈیپنڈنٹ اردو کو بتایا: ’ہم بدقسمتی سے ان متنازع دیہات میں رہ رہے جن کے لوگوں کی کوئی نہیں سنتا۔ ابھی تک نہ چارسدہ انتظامیہ ہماری پوری ذمہ داری لے رہی ہے اور نہ مہمند کے انتظامیہ کو مکمل طور پر ان دیہات کا اختیار دیا گیا ہے۔‘

ان کے بقول ان دیہات میں مہمند قبیلے کے لوگ آباد ہیں اور بہتر یہی ہوگا کہ ان کو مکمل طور پر ضلع مہمند کے ساتھ شامل کیا جائے۔ حبیب رسول کے بقول: ’اس مسئلے کو افہام وتفہیم کے ساتھ حل کیا جائے کیونکہ ان دیہات میں چارسدہ انتظامیہ کی مداخلت سے لوگ مشتعل ہو جاتے ہیں اور ایسا نہ ہو کہ دوسرے قبائلی ضلعوں کے حدبندی مسائل کی طرح یہاں پر بھی مسئلہ مزید گھمبیر ہوجائے۔‘

انہوں نے کہا کہ لڑکوں کے سرکاری مڈل سکول گل باچہ کورونہ، جو دہشت گرد حملے میں تباہ ہوا تھا، اس کی عمارت کے لیے انہوں نے اپنی زمین عطیہ کی ہے کیونکہ اس وقت سکول کی عمارت نہ ہونے کی وجہ سے ان کے بچے نجی سکول میں پڑھ رہے ہیں۔

تحصیل شبقدر کے انتظامی افسر اسسٹنٹ کمشنر سید فہد افتخار خان نے کہا کہ ان دیہات کی ڈیمارکیشن (حدبندی) کے لیے ضلع چارسدہ کے ڈپٹی کمشنر نے گذشتہ ماہ ایک کمیٹی بنائی ہے جس میں تحصیل یکہ غنڈ کے اسسٹنٹ کمشنر، تحصیل تنگی اور تحصیل شبقدرکے اسسٹنٹ کمشنران کے علاوہ دیگر متعلقہ افسران شامل ہیں جو مقامی لوگوں کے ساتھ مل کر اس مسئلے کو حل کریں گے۔

ضلع مہمند سے تعلق رکھنے والے ممبر صوبائی اسمبلی نثار مہمند نے ان دیہات کو ضلع مہمند میں مکمل طور پر شامل کرنے کے لیے پشاور ہائی کورٹ میں کیس دائر کیا تھا جس پر ہائی کورٹ نے جون 2017میں فیصلہ دیا کہ ان 13 دیہات کو ضلع مہمند میں شامل کیا جائے اور رہائشیوں کے ووٹ کا اندراج بھی مہمند کے حلقے میں  کیا جائے۔ اس فیصلے کی کاپی انڈیپنڈنٹ اردو کے پاس موجود ہے، تاہم ابھی تک اس پر کوئی عمل درآمد نہیں ہوا۔

دوسری جانب مہمند میں اسسٹنٹ کمشنر تحصیل یکہ غنڈ ڈاکٹر محسن حبیب نے بتایا کہ یہ مسئلہ ان کے انتظامی کاموں میں ایک بڑی رکاوٹ ہے جس کی وجہ سے وہ قانونی طور پر ان دیہات میں ترقیاتی کاموں کا کوئی بڑا منصوبہ بھی نہیں شروع کر سکتے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے کہا کہ تحصیل یکہ غنڈ میں سپورٹس کمپلیکس کی تعمیر کا منصوبہ بھی اسی وجہ سے ابھی تک شروع نہ ہوسکا۔ ’زمین الاٹ ہونے میں قانونی طور پر پیچیدگیاں موجود ہیں جس کی وجہ سے ترقیاتی کام ان متنازع دیہات میں دوسرے علاقوں کی نسبت کم ہورہا ہے۔‘

 انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں پشاور ہائی کورٹ کا بھی فیصلہ آچکا ہے اور اگر صوبائی حکومت اس پر عمل درآمد کے احکامات جاری کرے تو مسائل حل ہوسکتے ہیں۔

نثار خان مہمند ممبر صوبائی اسمبلی حلقہ پی کے 103 (مہمند-1) نے نتایا کہ ان 13 دیہات کے انتظامی امور ضلع چارسدہ کی انتظامیہ کے پاس جبکہ دیگر محکمے ضلع مہمند کے انتظامیہ دیکھتی ہے۔

ان کا کہنا تھا: ’ان دیہات کے حوالے سے میرے درخواست پر پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ بھی آچکا ہے کہ ان علاقوں کو مکمل طور پر ضلع مہمند کے حوالے کیا جائے۔ سال 2017 کی مردم شماری میں بھی ان دیہات کا شمار مہمند میں کیا گیا ہے اور رہائشیوں کا ووٹ اندراج بھی مہمند میں ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’ان دیہات کو مہمند میں شامل نہ کرنا صوبائی حکومت کی بدنیتی ہے‘ کیونکہ یہاں کی عوام کے مسائل کو جانتے ہوئے بھی حدبندی نہیں کر رہی۔

نثار مہمند کا کہنا تھا کہ 13دیہات کے لیے تو وہ ہائی کورٹ گئے جبکہ 12 دیہات اور بھی ہیں جو چارسدہ میں نہیں رہنا چاہتے اور مہمند کا حصہ بننا چاہتے ہیں۔

جب اس کی وجہ پوچھی گئی تو ان کا کہنا تھا: ’ان دیہات میں سارے لوگ مہمند قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں اور ان لوگوں کو آسانی ہوگی کہ اپنے دوسرے لوگوں کے ساتھ ان کے انتظامی معاملات بھی ایک ہوں۔ ضلع چارسدہ کی انتظامیہ کو پتہ ہے کہ ان دیہات میں جو لوگ رہ رہے ہیں وہ اپنے شناختی کارڈ اور ڈومیسائل کے لیے مہمند انتظامیہ سے رجوع کرتے ہیں جبکہ ان دیہات میں چارسدہ انتظامیہ کے لیے اپنی رٹ چلانا بھی مشکل ہے کیونکہ مقامی لوگ اپنے آپ کو مہمند کا حصہ مانتے ہے۔‘

نثار خان مہمند نے کہا ان دیہات کو مہمند میں شامل کرنے کے لیے قبائلی انضمام تحریک سے پہلے ایک مزاحمتی تحریک بھی مقامی سطح پر چلائی گئی تھی اور آخرکار 2017 کے وسط میں وہ پشاور ہائی کورٹ سے فیصلہ لینے میں کامیاب ہوگئے۔ ’اس طرح کے مسائل کو افہام وتفہیم اور عوام کی خواہش کے مطابق حل کرنا چاہیے تاکہ ان علاقوں میں ترقیاتی کام بروقت مکمل ہوسکیں۔‘

ضلع مہمند کے شمال میں واقع قبائلی ضلع باجوڑ کے ساتھ بھی مامدگٹ کے مقام پر حدبندی کا تنازع چلتا آرہا ہے جس میں کئی مرتبہ دونوں اضلاع کے لوگ مامدگٹ کے علاقے میں زمین کے عوض حکومت سے مراعات کے تقسیم پر ایک دوسرے کے خلاف مشتعل بھی ہوئے تھے۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان