مقامی کرکٹر کا اغوا: ’پولیس لوگوں کو صرف لوکیشن بتاتی رہی‘

محسن عباس کو نومبر 2020 کی ایک شام ڈیرہ اسماعیل خان سے اغوا کرنے کے بعد افغانستان پہنچا دیا گیا، جہاں سے اغوا کار ان کی رہائی کے لیے تین کروڑ روپے تاوان مانگ رہے ہیں۔

 غلام عباس کے مطابق ان بیٹے کو تاوان کے لیے اغوا کیا گیا (اے ایف پی)

23 سالہ نوجوان محسن عباس بلوچ کو چار نومبر، 2020 کی شام مقامی کرکٹ گراؤنڈ سے موٹر سائیکل پر اپنے گاؤں واپسی کے دوران گھر سے دو کلومیٹر دور تین مسلح موٹرسائیکل سواروں نے روکا۔

ان میں سے دو نے محسن کو اپنی موٹر سائیکل پر زبردستی بیٹھنے کو کہا جبکہ تیسرے نے ان کی موٹر سائیکل اٹھا لی۔

اس دوران مغوی کے چھوٹے بھائی محمد حسن سمیت ایک چنگچی رکشہ ڈرائیور نعمت محسود بھی موقعے پر پہنچ گئے۔ تاہم یہاں محسن نے اپنے بھائی کو اشارے سے ایک طرف ہوجانے کو کہا اور ملزمان کے ساتھ موٹرسائیکل پر سوار ہوگئے۔

رکشہ ڈرائیور نے انہیں چھڑوانے کی کوشش کی تو اغواکاروں نے پستول تان کر پشتو میں ایک دوسرے سے کہا کہ اسے گولی مار دیں، جس پر وہ مزاحمت کرنے سے رک گئے۔

محسن کا تعلق ڈیرہ اسماعیل خان کی تحصیل پروآ کے گاوں گونسر ملیکھی سے ہے اور وہ اپنی تحصیل کے معروف کرکٹر ہیں۔

انہوں نے گھریلو حالات کے پیش نظر صرف بی اے تک تعلیم حاصل کی اور پھر والد کا ہاتھ بٹانے کے لیے ایک شوگر فیکٹری میں کام کرنا شروع کر دیا۔

ایک مقامی شخص نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’مغوی کے والد غلام عباس کو عینی شاہد نعمت محسود کا فون آیا، جنہوں نے بتایا کہ آپ کے بیٹے محسن کو کچھ مسلح افراد اغوا کرکے لے گئے ہیں۔

’جس کے بعد پورے علاقے میں فون کالز اور اعلانات کیے گئے اور تھانہ پروآ میں بھی فوری طور پر اطلاع دے دی گئی تاکہ بروقت داخلی اور خارجی راستے بند کرکے اغوا کاروں کو پکڑا جا سکے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ یہ خبر علاقے میں پھیلتے ہی نزدیکی دیہاتوں کے  لوگ اکٹھے ہوگئے اور اس جانب پیچھا کرنا شروع کردیا جس طرف عینی شاہدین یعنیٰ رکشہ ڈرائیور اور مغوی کے چھوٹے بھائی نے ملزمان کے جانے کی نشاندہی کی تھی۔

’اس دوران پولیس بھی موقعے پر پہنچ گئی لیکن کافی اندھیرا ہوچکا تھا۔ مقامی پولیس لوگوں کو لوکیشن کے بارے میں آگاہ کرتی رہی کہ مغوی کے موبائل فون کے سنگل اس طرف سے آ رہے ہیں اور پھر لوگ مختلف ٹولیوں میں ہر طرف پھیل گئے۔ یہ تلاش ساری رات جاری رہی مگر کوئی کامیابی حاصل نہ ہوئی۔‘

جب ان سے یہ سوال کیا گیا کہ پولیس مقامی لوگوں کو محض لوکیشن کیوں بتاتی رہی جبکہ وہ خود جاکر بھی تو کارروائی کرسکتی تھی؟ اس کے جواب میں انہوں نے کہا یہ تو خود پولیس والے ہی بتا سکتے ہیں کہ انہوں نے ایسا کیوں کیا؟

انہوں نے مزید بتایا کہ صبح کے وقت دامانی کے علاقے کوڑی ہوت کے مقام پر دو موٹر سائیکلیں ملیں جو تلاش کرنے والے مقامی افراد نے ڈھونڈی تھیں۔

’ان میں سے ایک موٹر سائیکل محسن عباس کی تھی، جو اغوا کار دوران واردات ساتھ لے گئے تھے اور دوسری جس پر وہ مغوی کو ساتھ بیٹھا کر لے گئے تھے۔ پولیس نے دونوں موٹر سائیکل اپنی تحویل میں لے کر ایف آئی آر درج کر لی۔‘

پولیس تھانے میں درج روزنامچے کے مطابق محسن کو بروز بدھ شام پانچ بج کر 40 منٹ پر اغوا کیا گیا، درخوست گزار غلام عباس نے شبہ ظاہر کیا کہ ان بیٹے کو بھونگا (تاوان) کے لیے اغوا کیا گیا کیونکہ مغوی کے ماما محمد افضل بلوچ کو 2013 میں ان کے گھر سے رات گئے اغوا کیا گیا تھا اور پھر 30 لاکھ روپے ادائیگی کے بعد ان کی رہائی ہوئی تھی۔

انڈپینڈنٹ اردو نے محمد افضل سے رابطہ کرنے کی کوشش کی مگر ان کی طرف سے کوئی جواب نہیں ملا۔

مختلف ذرائع کی مدد سے ان سے بات کرنے کی کوشش کی گئی تو انہوں نے کہا کہ وہ اس معاملے پر کچھ نہیں کہنا چاہتے کیونکہ پہلے ہی ان کے ساتھ یہ واقعہ ہوچکا لہٰذا وہ خوف میں ہیں۔

تین کروڑ روپے تاوان کا مطالبہ

محسن کے اغوا ہونے کے 18 دن بعد یعنیٰ 22 نومبر کو افغانستان کی ایک موبائل سم نمبر سے ان کے اہل خانہ کو کال آئی، جس میں ان سے تین کروڑ روپے کا بندوبست کرنے کو کہا گیا۔

انڈپینڈنٹ اردو کو موصول ایک ویڈیو میں محسن عباس سے بھی تاوان کا مطالبہ کروایا گیا۔ اس ویڈیو کا دورانیہ ایک منٹ 12 سیکنڈ ہے جس میں محسن عباس سرائیکی زبان میں اپنے خاندان سے مخاطب ہوکر کہہ رہے ہیں: ’میں یہاں افغانستان میں خیر وعافیت سے پہنچ گیا ہوں۔

’جتنے بھی آپ گھر والے ہیں ابو، چچا، ماما اس معاملے میں حکومت کو شامل نہ کریں اور مہربانی کرکے ان کا جو مطالبہ ہے وہ پورا کردیں اور مجھے جلد از جلد یہاں سے رہائی دلوائیں۔

’اگر آپ نے اس معاملے میں حکومت کو شامل کیا یا پھر ان کا مطالبہ نہ مانا تو پھر یہ مجھے قتل کردیں گے۔‘

مغوی کے والد غلام عباس نے انڈپینڈنٹ اردو سے ٹیلی فون پر گفتگو کرتے ہوئے بتایا: ’ہماری کسی سے کوئی دشمنی نہیں، بیٹے کے اغوا ہونے کے بعد ڈیرہ اسماعیل خان پولیس کے اعلیٰ عہدے داران سمیت سٹیشن کمانڈر تک درخواست کی گئی کہ انصاف دلوایا جائے مگر سبھی نے صرف تسلیاں دیں۔

’آج میرے بیٹے کو اغوا ہوئے 134 دن ہوگئے ہیں۔ ہم ان کی راہ تک رہے ہیں۔ مجھے پہلے شک تھا کیونکہ ہمارے ساتھ پہلے ایسا واقع ہوچکا لیکن میں حیران ہوں کہ کوئی ایسی آبادی والے علاقے سے کسی کو اغوا کرکے افغانستان پہنچا سکتا ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

غلام عباس نے مزید کہا: ’اللہ کے بعد ہمارے لیے کوئی ہے تو وہ ہماری افواج پاکستان ہے۔ جب سے یہ واقعہ ہوا ہے، اس کے دو ماہ تک پروآ پولیس رابطے میں رہی۔

’پھر بعد میں سی ٹی ڈی کے اہلکار بھی رابطہ کرتے رہے لیکن اب ایک ماہ سے زیادہ وقت ہوگیا ہم سے کوئی رابطہ نہیں کیا گیا۔‘

جب ان سے تین کروڑ تاوان کی وصولی اور ویڈیو کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے ان دونوں چیزوں کی تصدیق کرتے ہوئے کہا: ’میں انتہائی غریب ہوں، میری کل 25 کنال زمین ہے۔ اگر میں وہ بیچ بھی دوں تو بھی تین کروڑ روپے جمع نہیں کرسکتا اور نہ ہی مجھے کوئی اتنا بڑا قرضہ دینے کو تیار ہے۔

’اس لیے بس اللہ پر ہی بھروسہ کرسکتے ہیں، باقی تو ہمارا کوئی وسیلہ نہیں لہٰذا وزیراعظم، چیف جسٹس اور آرمی چیف سے درخواست ہے کہ میرے بیٹے کو بازیاب کروایا جائے۔‘

انڈپینڈنٹ اردو نے پولیس افسر تھانہ پروآ محمد رمضان سے رابطہ کرکے اس کیس کے بارے میں جاننا چاہا تو انہوں نے مختصراً صرف اتنا کہا کہ ’یہ کیس اب ہمارے ہاتھ میں نہیں لہذا آپ سی ٹی ڈی سے رابطہ کریں،‘ تاہم سی ٹی ڈی سے رابطہ نہ ہوسکا۔

واضح رہے تحصیل پروآ میں صحافی ملک امان اللہ سمیت درجنوں افراد کو ٹارگٹ کلنگ میں مارا جا چکا ہے اور کئی خاندان ان واقعات اور اغوا برائے تاوان کے ڈر سے دوسرے صوبوں میں پناہ لینے پر مجبور ہو گئے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان