272 سال پرانے درس نظامی کے جدید نصاب کا خیر مقدم

نظام المدارس بورڈ کے مرکزی رہنما ڈاکٹر طاہر القادری نے گذشتہ ہفتے قومی علما کانفرنس میں نظام المدارس پاکستان کا نیا نصاب پیش کیا تھا۔

کراچی کے جامعہ بنوریہ میں طالب علم امتحان دیتے ہوئے (فائل تصویر: اے ایف پی)

پاکستان میں نظام المدارس بورڈ نے حال ہی میں عالم بننے کے لیے پڑھائے جانے والے 200 سال سے زائد پرانے کورس درس نظامی میں جدید علوم شامل کرکے نیا نصاب پیش کیا ہے جس کا اسلامی نظریاتی کونسل نے بھی خیر مقدم کیا ہے۔

نظام المدارس بورڈ کے مرکزی رہنما ڈاکٹر طاہر القادری نے گذشتہ ہفتے قومی علما کانفرنس میں نظام المدارس پاکستان کا نیا نصاب پیش کیا تھا، جس میں علما کو دور حاضر کی ضروریات کے مطابق اسلامی تعلیمات سے متعلق تعلیم دی جائے گی۔

منہاج القرآن کے رہنما خرم نواز گنڈاپور کے مطابق 272 سالہ پرانے درس نظامی کے کورس میں موجودہ دور کے تقاضوں اور ضروریات سے متعلق اسلامی رہنمائی میں مشکلات ہیں اور اس میں جدید علوم شامل کرنا ناگزیر ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ سائنس کے کئی فارمولے قرآنی آیات کی ترجمانی کرتے ہیں لیکن علما کو اس بارے میں علم ہی نہیں ہوتا۔

جدید علوم کی اہمیت

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں خرم گنڈاپور نے بتایا کہ قائد تحریک منہاج القرآن ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے مدارس دینیہ کے نصاب کے موضوع پر گذشتہ ہفتے آن لائن منعقد ہونے والی قومی علما کانفرنس میں نظام المدارس پاکستان کا نیا نصاب پیش کیا۔

اس موقعے پر طاہر القادری نے کہا کہ درس نظامی کا موجودہ نصاب 272 سال پرانا ہے۔ ان کے بقول نظام المدارس پاکستان میں زیر تعلیم طالب علموں کے لیے آٹھ سال کے تدریسی عرصے کے دوران نصابی کتب کے ساتھ ساتھ 364 کتب کا مطالعہ شامل کرے گا۔

ڈاکٹر طاہرالقادری نے کہا کہ وہ مدارس دینیہ کا ایسا علمی کردار اور مقام چاہتے ہیں کہ یہاں کا فارغ التحصیل طالب علم چاہے تو مسجد میں چلا جائے، چاہے تو اپنی صلاحیتیں بروئے کار لا کر زندگی کے کسی بھی شعبے میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا سکے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

خرم نواز گنڈاپور کے مطابق: ’سب سے زیادہ سود یا بغیر سود بینکاری، ٹیکس اور ذکوٰۃ کے معاملات اور نجی زندگی میں رشتوں کے قائم اور ختم ہونے سے متعلق معاملات کو اسلامی ہدایات کی روشنی میں حل کرنا خاصا مشکل ہوتا جارہا ہے۔ سائنس وٹیکنالوجی کے معاملات یا انشورنس کرانے یا نہ کرانے میں اسلامی تقاضے کیا ہیں؟ یہ سب ابہام پیدا ہوتے جارہے ہیں، اسی لیے موجودہ دور کے تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے 20 مضامین کو بڑھا کر 39 کردیا گیا ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’درس نظامی کا کورس کرنے والے علما جدید تقاضے پورے نہیں کرسکتے، اسی لیے عام لوگوں اور علما میں فاصلے بڑھتے جا رہے ہیں اور وہ امامت اور جنازے پڑھانے تک محدود ہوچکے ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ وفاق المدارس اور المدارس العربیہ سمیت پہلے پانچ وفاق تھے مگر اب حکومتی سطح پر نظام المدارس سمیت پانچ نئے وفاق قائم کر دیے گئے ہیں۔

درس نظام کیا ہے؟

اس حوالے سے بات کرتے ہوئے اسلامی نظریاتی کونسل کے سربراہ قبلہ ایاز نے بتایا کہ برصغیر میں علما نے مشترکہ طور پر سرٹیفائیڈ عالم کے لیے 272 سال قبل درس نظامی کا کورس متعارف کرایا تھا، جس میں ہر مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے علما کو اعتماد میں لیا گیا اور اس مقصد کے لیے متفقہ علما کی احادیث کی کتب شامل کی گئیں، جنہیں صحاح ستہ کتب کہا جاتا ہے۔

ان کے مطابق یہ بنیادی نصاب سب مدارس کے لیے ایک جیسا ہے اور تمام علما جو کورس کرتے ہیں، انہیں مفتی کا درجہ ملتا ہے یعنی قانونی طور پر انہیں احادیث کی روشنی میں کسی بھی معاملے میں رائے پر فتویٰ جاری کرنے کا اختیار ہوتا ہے۔ عالم کورس کرنے والے مفتی حضرات کا مہر بند فتویٰ عدالتوں میں بھی شرعی قوانین سے مطابقت رکھنے پر تسلیم کیا جاتا ہے۔

نصاب ایک تو علما کا نقطہ نظر مختلف کیوں؟

منہاج القرآن کے خرم نواز گنڈاپور کے مطابق ہر وفاق اپنے اپنے عہدیداروں کی مجلس سے منظوری کے بعد اپنے کورس صحاح ستہ کے ساتھ نصاب کو تشکیل دیتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ مختلف تاریخی اختلافات پر تقسیم پائی جاتی ہے اور فرقے بھی وجود میں آئے۔

دوسری جانب قبلہ ایاز نے کہا کہ درس نظامی کے کورس میں احادیث کی کتب صحاح ستہ تک تو سب مکتبہ فکر میں اتفاق پایا جاتا ہے مگر جب اس کے علاوہ ہر فرقے سے تعلق رکھنے والے جید علما کی جانب سے تحریر کردہ قرآن پاک کی تفسیر پیش کی جاتی ہے تو وہ ان کی اپنی تحقیق اور ترجمے کے لحاظ سے مختلف ہوتی ہے جس پر تمام فرقوں کا متفق ہونا لازمی نہیں۔

 لہذا ایسے حالات میں مختلف علما سے ہم آہنگی اور پیروی کرنے والے اسی پر عمل درآمد کرتے ہیں۔ ’مختلف آرا اور تفسیر میں فرق اور کتب میں الگ نقطہ نظر پیش کرنے سے رائے بھی منقسم بنتی ہے، جس سے فرقے بھی مختلف جنم لیتے ہیں حالانکہ بنیادی اسلامی تعلیمات سب مکاتب فکر کے علما کی ایک جیسی ہی ہوتی ہیں۔‘

ان کے خیال میں علما کی مختلف موضوعات پر قدیمی روایات سے متعلق لکھی گئی کتب میں ایک ہی واقعے کے کئی پہلوؤں پر روشنی ڈالی جاتی ہے، جس کا ہر ایک اپنی عقل ودانش کے مطابق تاثر بھی مختلف محسوس کرتا ہے جبکہ بنیادی اختلاف بہت کم فرقوں میں پایا جاتا ہے۔

قبلہ ایاز کے مطابق درس نظامی کے کورس کو جدید علوم سے ہم آہنگ کرنا وقت کی ضرورت بن چکا ہے۔ انہوں نے اس بات کو خوش آئند قرار دیا کہ نظام المدارس نے جدید علوم شامل کرکے نصاب پیش کیا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی کیمپس