وقف املاک قانون: عالمی اداروں کی ’مدارس تک رسائی‘ پر علما کو تحفظات

وفاقی وزارت قانون کے ایک سینئیر افسر کا کہنا ہے کہ قانون کی مخالفت صرف اس لیے ہو رہی ہے کہ بہت ساری مساجد اور مدارس کی معلومات تک حکومت کی پہنچ ہو جائے گی جو ان اداروں کے منتظمین نہیں چاہتے۔

ملک بھر میں مساجد اور دینی مدارس کے منتظمین نے وقف املاک قانون کے نفاذ پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے(فائل تصویر: اے ایف پی)

پاکستان میں مساجد اور دینی مدارس کے انتظامی اداروں نے پاکستان تحریک انصاف حکومت کی جانب سے ’دہشت گردی میں مالی معاونت اور منی لانڈرنگ‘ کی حوصلہ شکنی کے لیے اسلام آباد میں وقف املاک سے متعلق قانون کے نفاذ کو مسترد کر دیا۔ 

مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے سابق چیئرمین مفتی منیب الرحمٰن کا کہنا ہے: 'یہ قانون نہ صرف اسلامی تعلیمات اور ہماری روایات بلکہ آئین پاکستان اور قانون کے بھی خلاف ہے۔' انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ تمام مساجد اور مدارس اس قانون کی مزاحمت کریں گے اور اس سلسلے میں تمام مکاتب فکر ایک ہی صفحے پر ہیں۔ 

ملک بھر میں مساجد اور دینی مدارس کے منتظمین نے اس قانون کے نفاذ پر ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے اس کے خلاف مزاحمت کے لیے تحریک تحفظ مساجد و مدارس کے نام سے تنظیم تشکیل دی ہے، جس میں تمام مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے علما اور مذہبی شخصیات شامل ہیں۔ جماعت اسلامی نے بھی تحریک کی حمایت اور قانون کی مخالفت کا اظہار کیا ہے۔ 

تحریک انصاف حکومت نے گذشتہ سال اسلام آباد کیپیٹل ٹریٹری (آئی سی ٹی) وقف املاک ایکٹ 2020 کے نام سے ایک قانون متعارف کیا ہے، جس کا مقصد ضلع اسلام آباد میں واقع وقف املاک کو انسداد منی لانڈرنگ ایکٹ 2010 کے تحت لانا ہے۔ اس قانون کا بل قومی اسمبلی سے منظور نہیں کروایا جا سکا، تاہم بعد ازاں اسے پارلیمان کے دونوں ایوانوں کے مشترکہ اجلاس کے سامنے پیش کرکے قانون کی شکل دے دی گئی۔ 

وقف املاک کیا ہیں؟ 

مسلمان وقف املاک کی تعریف مذہبی، تعلیمی، خیراتی یا کسی بھی دوسرے نیک مقصد کے لیے مختص ملکیت یا اثاثے کے طور پر کرتے ہیں۔ دنیا بھر کے مسلمان معاشروں میں بڑی تعداد میں ایسی مساجد اور دینی مدارس ہیں جن کے لیے نہ صرف زمین بلکہ دوسرے ذرائع بھی لوگوں نے اپنے ذاتی ذرائع سے وقف کیے ہیں۔ 

وقف املاک میں صرف مساجد یا دینی مدارس شامل نہیں بلکہ بڑی تعداد میں ہسپتال، تعلیمی ادارے اور دوسرے خیراتی ادارے بھی اسی طرح قائم کیے اور چلائے جاتے ہیں۔ پاکستان میں بھی وقف املاک پر بنائے گئے اداروں کی بڑی تعداد موجود ہیں جن میں اکثریت مساجد اور دینی مدارس کی ہے۔ 

وفاق المدارس کے میڈیا کوآرڈینیٹر عبدالقدوس محمدی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ وفاقی دارالحکومت میں ان کی تنظیم کے تقریباً 300 دینی مدارس موجود ہیں جن میں سے اکثر الگ الگ انتظامات کے تحت وقف املاک ہیں۔ ان کا خیال تھا کہ ضلع اسلام آباد میں وقف مساجد کی تعداد ہزاروں میں ہو سکتی ہے۔  

قانون کیا ہے؟ 

مذکورہ قانون پاکستان کو فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کی گرے لسٹ (grey list)  سے نکالنے کی غرض سے دہشت گردی اور اس کی مالی معاونت کے خلاف کام کرنے والے اس ادارے کی ایما پر گذشتہ سال متعارف کروایا گیا تھا۔ 

وزیر اعظم کے مشیر برائے پارلیمانی امور ظہیر الدین بابر اعوان کا کہنا تھا: 'یہ قانون وفاقی حکومت کے احکامات پر عمل درآمد کو زیادہ موثر بنانے کے لیے اسلام آباد کیپیٹل ٹریٹری اتھارٹی میں وقف املاک کے انتظام، نگرانی اور انتظامیہ کے مقاصد کے لیے پیش کیا گیا ہے۔'

اس قانون کے تحت ضلع اسلام آباد میں موجود وقف املاک سے متعلق معلومات کی جانچ پڑتال ایف اے ٹی ایف سمیت بین الاقوامی ادارے کر سکتے ہیں۔ قانون میں وقف املاک کی انتظامیہ کو ملکی یا بین الاقوامی تعاون کے مقصد کے تحت کسی بھی وقت وقف املاک اور اس سے متعلقہ املاک یا اداروں سے متعلق معلومات فراہم کرنے کا پابند بنایا گیا ہے۔  

آئی سی ٹی وقف املاک ایکٹ 2020 کے تحت 19 گریڈ کے مسلمان سرکاری افسر کو وقف املاک کے لیے چیف ایڈمنسٹریٹر کے طور پر تعینات کیا جائے گا جو بوقت ضرورت وقف املاک سے متعلق ہر مطلوبہ معلومات کی فراہمی کو یقینی بنائیں گے۔  وقف املاک کی انتظامیہ کی طرف سے معلومات فراہم کرنے سے انکار کی صورت میں قانون کے تحت پانچ سال تک کی قید اور ڈھائی کروڑ روپے جرمانہ کیا جا سکتا ہے۔ 

وفاقی وزارت قانون کے ایک سینئیر افسر کا کہنا تھا: 'مخالفت صرف اس لیے ہو رہی ہے کہ بہت ساری مساجد اور مدارس کی معلومات تک حکومت کی پہنچ ہو جائے گی جو ان اداروں کے منتظمین نہیں چاہتے۔' 

نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اب تک یہ تمام ادارے انتظامیہ کے لیے سیاہ علاقے (بلیک ایریاز) تھے لیکن اب ایسا نہیں رہے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ بلیک ایریاز کی موجودگی میں ایف اے ٹی ایف کو اپنی بے گناہی پر قائل کرنا مشکل نہیں ناممکن تھا۔ 

مخالفت کیوں؟ 

دیوبندی اور اہل حدیث مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے علما اور مذہبی سکالرز مذکورہ قانون کو اسلامی تعلیمات اور مساجد و مدارس کے خلاف ایک سازش قرار دیتے ہیں۔ مفتی منیب الرحمٰن نے چند روز قبل اسلام آباد میں تحریک تحفظ مساجد و مدارس کے زیر اہتمام کانفرنس سے خطاب میں قانون کے خلاف ذاتی طور پراحتجاج کرنے کا اعلان کیا۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دوسری جانب امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے چیئرمین سینیٹ کو اس سلسلے میں ایک خط بھی لکھا، جس میں انہوں نے کہا: 'ایف اے ٹی ایف کے نام پر منظور کردہ وقف املاک سے متعلق قانون مساجد، دینی مدارس اور اسلامی تعلیمات کے لیے قائم دیگر اداروں پر غیر ضروری قواعد و ضوابط لاگو کر کے ان اداروں کے لیے املاک وقف کرنے کی حوصلہ شکنی کرنا ہے۔' تحریک تحفظ مساجد و مدارس کے رہنما سمجھتے ہیں کہ وقف املاک سے متعلق قانون کا اسلام آباد میں نفاذ پہلا قدم ہے اور اگلے مراحل میں ملک بھر کے دینی اداروں کو حکومتی کنٹرول میں لایا جائے گا۔ 

تحریک کے رہنما علامہ زاہدالراشدی کے مطابق: 'اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ پاکستان میں مساجد و مدارس کے بارے میں عالمی استعمار کے اس مبینہ ایجنڈے کی تکمیل کا فیصلہ کن قدم ہوگا جس سے ڈیڑھ سو سال سے دینی تعلیم و عبادت کا آزادانہ کردار باقی نہیں رہے گا۔'

تحریک تحفظ مساجد و مدارس نے قانون میں ترامیم کا مطالبہ کرتے ہوئے اس سے متنازع شقوں کو نکالنے کا مطالبہ کیا ہے۔ مفتی منیب الرحمٰن نے بتایا کہ سپیکر قومی اسمبلی کو قانون میں مجوزہ ترامیم کا مسودہ بھیج دیا گیا اور انہوں نے اس سلسلے میں وعدہ بھی کیا ہے۔ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان