’وزیر اعلیٰ نے ہیڈ مسٹریس آف دا ائیر کا ایوارڈ دیا مگر ریگیولر نہیں کیا‘

کئی ہفتوں سے مستقل ملازمت کے مطالبے کے ساتھ کراچی میں سراپا احتجاج کنٹریکٹ پر بھرتی ہیڈ ماسٹرز کا کہنا ہے انہوں نے چار سال محنت کی اور اب حکومت انہیں نوکری سے نکالنے کی کوشش کر رہی ہے۔

ہیڈماسٹرز دس دن سے سندھ اسمبلی کے باہر سراپا احتجاج ہیں (انڈپینڈنٹ اردو)

سندھ اسمبلی کے باہر گذشتہ دس روز سے جاری کنٹریکٹ پر بھرتی ہیڈ ماسٹرز کے مستقل ملازمت کے لیے احتجاج میں شریک اسما سردار اپنے سکول سے چند روز کی چھٹیاں لے کر آئی ہیں، اس امید سے کہ ان کے احتجاج کا کوئی نتیجہ نکلے گا۔ 

وہ سندھ کے ضلع میرپورخاص کی تحصیل ڈگری کے ایک سرکاری پرائمری سکول میں ہیڈ مسٹریس ہیں۔ ان کے سکول میں 22 مرد استاذہ ہیں، جن کی وہ نگرانی کرتی ہیں۔ سکول کے پورے عملے میں وہ واحد خاتون ہیں۔ 

انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے اسما سردار نے بتایا: ’ہیڈ مسٹریس کی پوسٹ کے لیے میں نے 2015 میں امتحان دیا تھا اور 2017 میں جوائنگ آرڈر ملا۔ جوائنگ کے بعد جب میں نے سکول میں کام شروع کیا تو اس وقت چار سو بچے تھے۔ چار سال تک سخت محنت کے بعد آج میرے سکول میں 12 سو طلبہ ہیں، مگر اس کے باجود بھی ہمیں حکومت ریگیولر نہیں کررہی۔ ‘

سندھ میں کنٹریکٹ پر بھرتی ہیڈ ماسٹرز کا ریگیولرائزیشن یعنیٰ مستقل ملازمت کے لیے کئی ہفتوں سے کراچی پریس کلب کے باہر احتجاج جاری ہے۔ دس روز قبل ہیڈ ماسٹرز نے پولیس کی سخت مزاحمت کے باوجود سندھ اسمبلی کے سامنے احتجاج شروع کردیا جو اب بھی دن رات جاری ہے۔ ہیڈ ماسٹرز نے وزیراعلیٰ ہاؤس جانے کی بھی کوشش کی، جسے پولیس نے ناکام بنادیا۔ اس دوران مظاہرین اور پولیس کے درمیاں دھکم پیل بھی ہوئی تھی۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اسما سردار کہتی ہیں: ’مجھے وزیراعلیٰ سندھ نے ’ہیڈمسٹریس آف دا ایئر‘کا ایوارڈ دیا تھا، جس کا مطلب ہے کہ ہم اچھا کام کررہے ہیں، تو پھر ہمیں ریگیولر کیوں نہیں کرتے؟ جب کسی کو اچھا سکول دکھانا ہوتا ہے تو ہمارے سکول میں ان کو لے آتے ہیں، مگر ہمیں ریگیولر نہیں کرتے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا: ’اب چار سال بعد کہتے ہیں کہ ہم ایک اور امتحان دیں تب ریگیولر کیا جائے گا، تو چار سالوں سے کیا ہم کام نہیں کررہے تھے؟ میرے شہر سے کراچی آنے میں چار گھنٹے لگتے ہیں، مگر میں اس امید پر آئی ہوں کہ ہماری جدوجہد سے ہمیں حق ملے گا۔‘

احتجاج کرنے والے ہیڈماسٹر فیضان سمی چانڈیو نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 2017 میں محکمہ تعلیم سندھ نے ورلڈ بینک کے ایک پراجیکٹ ’کیمپس کلسٹر پالیسی‘ کے تحت پرائمری اور سیکنڈری سکول کے لیے 17 گریڈ میں 937 ہیڈماسٹرز کو کنٹریکٹ پر بھرتی کیا تھا، جن کا ٹیسٹ آئی بی اے سکھر میں ہوا تھا۔  

انہوں نے کہا: ’سندھ حکومت نے کئی سرکاری محکموں کے ملازمین کو کنٹریکٹ سے ریگیولر کیا ہے تو ہمیں کیوں نہیں کررہی؟ ہمارا کنٹریک ابھی چل رہا ہے مگر سندھ حکومت نے سندھ پبلک سروس کمیشن کو کہا ہے کہ ان پوسٹوں پر کمیشن کا امتحان لیا جائے، جس کا مطلب ہے کہ وہ ہمیں نکالنا چاہ رہے ہیں۔ ‘

ایک سوال کے جواب میں فیضان سمی چانڈیو نے کہا کہ چند ہیڈماسٹرز نے عدالت میں کیس کیا ہے، مگر اس کیس میں سب شامل نہیں ہیں، تو اس لیے سندھ حکومت کہہ رہی ہے کہ اگر ہمیں ریگیولر کیا تو توہین عدالت ہوجائے گی۔ 

’ہم نے چار سالوں تک ملازمت کی ہے، یہ عرصہ تو ہماری عمر سے کٹ جائے گا، اب اگر ہمیں نوکری سے نکال دیتے ہیں تو ہم کیا کریں گے؟ چار سالوں تک ہم اہل تھے جو پڑھا رہے تھے، اب کہتے ہیں کہ نہیں کمیشن کلیئر کریں، یہ کہاں کا انصاف ہے؟‘

دوسری جانب مقامی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا: ’عدالت نے ان کنٹریکٹ پر بھرتی ہیڈماسٹرز کو ریگیولر کرنے کے لیے سندھ پبلک سروس کمیشن کا امتحان ضروری قرار دیا ہے۔ مگر یہ ہیڈ ماسٹر  نہ تو کمیشن کے امتحان میں شریک ہورہے ہیں اور نہ ہی اپنے سکولوں میں واپس جارہے ہیں، اگر سندھ حکومت ان کے کنٹریکٹ میں توسیع کرتی ہے تو یہ توہین عدالت ہوگا۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی کیمپس