وہ طبی عملہ جسے ہم بھلا بیٹھے ہیں

کرونا وائرس کے خلاف عالمی جنگ میں ہر ملک کو وسائل کے حوالے سے مشکلات کا سامنا رہا۔ پاکستان کے ترقی یافتہ ممالک کو بھی کرونا کو محدود کرنے اور اس سے ہوئے نقصان کو کم کرنے کے حوالے سے ایک بڑے چیلنج کا سامنا کرنا پڑا۔

(اے ایف پی)

پاکستان میں کرونا (کورونا) وائرس نے جس وقت سر اٹھایا تو وزیر اعظم عمران خان نے اپنا مشہور فقرہ ’گھبرانا نہیں‘ ایک بار پھر دہرایا لیکن ساتھ ہی کہا کہ یہ وائرس پھیلے گا۔

ان کا کہنا تھا، ’دنیا کے مختلف ممالک میں یہ پھیل رہا ہے جہاں طبی سہولیات بہترین ہیں اور ادارے مضبوط۔ اس لیے جان لیں کہ یہاں بھی پھیلے گا۔‘

وزیر اعظم کی جانب سے لاک ڈاؤن کی افادیت پر شک اور معیشت کو ترجیح دینے نے پالیسی کا فقدان پیدا کر دیا۔ لیکن ایک بار پھر ’ملاکا سٹک‘ نے فیصلہ سازی پر کنٹرول لیا اور لاک ڈاؤن کا حکم صادر ہوا۔

کرونا وائرس کے خلاف عالمی جنگ میں ہر ملک کو وسائل کے حوالے سے مشکلات کا سامنا رہا۔ پاکستان کے ترقی یافتہ ممالک کو بھی کرونا کو محدود کرنے اور اس سے ہوئے نقصان کو کم کرنے کے حوالے سے ایک بڑے چیلنج کا سامنا کرنا پڑا۔

کرونا وبا میں ڈاکٹروں، نرسوں، پولیس اہلکاروں، سینی ٹیشن ورکروں، بینک کے ملازمین، سرکاری ملازمین نے اپنی جانیں داؤ پر لگا کر عوام کو سہولیات فراہم کیں۔

ان فرنٹ لائن ورکروں نے مخفی اور تیزی سے پھیلنے والے دشمن کے خلاف جنگ میں حصہ لیا جس نے دنیا کے صحت کے نظام کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ ایسا دشمن جس نے ایک عام انسان سے لے کر سربراہان تک کسی کو نہیں چھوڑا۔

جنگ میں اپنی جانیں قربان کرنے والوں کو یاد رکھا جاتا ہے اور احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ ان کے لیے تمغے اور یادگاریں کھڑی کی جاتی ہیں۔ یہ فرنٹ لائن ورکرز بھی ان فوجیوں کی طرح ہیں جنھوں نے مختلف یونیفارم تو ضرور پہن رکھی ہے لیکن کرونا جیسے دشمن کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور کر رہے ہیں۔

ہر سال کی طرح اس سال بھی یوم پاکستان کی مناسبت سے مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد میں صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے سول انعامات تقسیم کیے گئے۔ اس فہرست میں 12 ڈاکٹروں کے نام بھی شامل تھے جن کی کرونا جیسے موذی وائرس کے خلاف اپنے فرائض انجام دیتے ہوئے اسی کے ہاتھوں موت واقع ہوئی۔

پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں کم از کم 142 ڈاکٹرز کرونا وائرس کے ہاتھوں لقمہ اجل بن چکے ہیں جبکہ 26 طبی عملے کا کارکنان اپنی جان گنوا بیٹھے ہیں۔

ان میں گلگت بلتستان کے ڈاکٹر اسامہ ریاض بھی شامل ہیں جو 26 سال کی کم عمری میں پاکستان میں کرونا سے جان کی بازی ہارنے والے پہلے ڈاکٹر ہیں۔ اسامہ دس رکنی ٹیم میں شامل تھے جن کو پاکستان کے دیگر علاقوں سے گلگت بلتستان آنے والے افراد اور خاص طور پر ایران اور عراق سے واپس آنے والے افراد کی سکریننگ کرنے کا کام سونپا گیا۔

ہسپتالوں میں وسائل کی کمی اور وبا میں روز بروز اضافے نے پاکستان کے پہلے ہی سے نازک ہیلتھ سیکٹر کو مزید مشکلات میں ڈال دیا۔ ملک کے بڑے شہروں میں ہسپتالوں کو مریضوں کے اضافے اور وسائل کی کمی کے باعث مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

کئی ہسپتالوں کو کرونا مریضوں کو اس وقت پایوس واپس بھیجنا پڑا جب ان کے پاس بستر اور وینٹی لیٹرز کی کمی ہوئی۔ صوبہ پنجاب کی وزیر صحت یاسمین راشد نے اعلان کیا کہ صوبے بھر میں صرف 539 بستر اور 200 وینٹی لیٹرز ہیں۔

پاکستان میں صرف دو ہزار وینٹی لیٹر تھے اور کرونا کے مریضوں کی تعداد میں روز بروز اضافے کے باعث خدشہ تھا کہ موجودہ وسائل پورے نہیں پڑیں گے۔ مریضوں کے اضافے اور حکومت کی جانب سے فیصلہ کرنے میں تاخیر سے کرونا وبا سے لڑنے کی ذمہ داری طبی عملے پر آن پڑی۔

ان کو مریضوں کے علاج کی ذمہ داری اٹھانی پڑی جبکہ وہ خود اضطراب کے عالم میں رہے۔ ان کو نفسیاتی مدد کی ضرورت تھی جو کہ دیگر ممالک میں تو دستیاب تھی اور ہے، لیکن پاکستان میں نہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پاکستان میں طبی عملے کو کرونا وبا کے حوالے سے ایک طرف اگر اضطراب کی حالت میں تھے تو دوسری جانب ان کو تنظیمی سطح پر تیاری کے فقدان کا سامنا تھا لیکن ساتھ ساتھ اپنے پیشے سے کمٹمنٹ۔ وہ نفسیاتی تکلیف اور جذباتی طور پر کمزور ہو چکے تھے۔

ایک طرف ان کے لیے مہیا کیے گئے حفاظتی لباس کی کمی تھی اور وہ بار بار اپنا ایک ہی لباس استعمال کر رہے تھے تو دوسری جانب ان کو اپنی ذاتی صحت کی فکر لاحق تھی، ان کو اپنے خاندان کے لیے فکر تھی جن کے پاس وہ روزانہ اس خوف کے ساتھ لوٹتے کہ کہیں ان سے ان کے پیاروں کو یہ موذی مرض نہ لگ جائے۔ عملے نے وقت کی پرواہ کیے بغیر لمبے دورانیے کے لیے کام کیے۔

یہ طبی عملہ ہی تھا جس نے نفسیاتی دباؤ، ذاتی اور سماجی زندگی پر اثر پڑنے کے باوجود بڑھتی ہوئی پیشہ وارانہ ذمہ داریوں کو پورا کیا۔ وہ فرنٹ لائن پر ڈٹے رہے اور مشکلات کے باوجود انھوں نے اپنے فرائض سر انجام دیے۔

کیا ہی اچھا ہوتا کہ حکومت ان فرنٹ لائن کارکنان کی خدمات کو سراہنے کے لیے کچھ آؤٹ آف دی باکس سوچتی۔ کیا یہ ممکن نہیں تھا کہ ایک ایوارڈ کا اعلان ملک کے طبی عملے یا فرنٹ لائن ورکرز کے لیے کر دیا جاتا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی صحت