ایران اور چین کے درمیان 25 سالہ معاہدہ امریکہ کے لیے پیغام

اس معاہدے سے ایران کو اس امریکی دباؤ کے مقابلے کے لیے مزید گنجائش مل جائے گی جو وہ اس کی ایٹمی معاہدے میں غیرمشروط واپسی کے لیے ڈال رہا ہے۔

ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف اور چینی وزیر خارجہ وانگ یی نے ہفتے کو معاہدے پر دستخط کیے (اے ایف پی)

لمبے عرصے تک زیر بحث رہنے کے بعد ہفتے کے اختتام پر چین اور ایران کے درمیان تجارت، سرمایہ کاری اور دفاع کے شعبوں میں معاہدہ ہو گیا ہے۔

اس معاہدے سے ایران کو اس امریکی دباؤ کے مقابلے کے لیے مزید گنجائش مل جائے گی جو وہ اس کی ایٹمی معاہدے میں غیرمشروط واپسی کے لیے ڈال رہا ہے۔

لیکن یہ واضح نہیں ہے کہ بیجنگ اور تہران کے درمیان ہونے والے 25 سالہ معاہدے کے نتیجے میں فوری طور پر کسی قسم کی ٹھوس تبدیلیاں ہوں گی۔ لندن میں مقیم تجزیہ کار اور ایران اور وسطی ایشیا کی معاشی ترقی کے ماہر اسفند یار بتمنگیلیج نے کہا: ’معاہدہ اہمیت کا حامل ہے اور اس کا وقت اہم ہے۔ ایران اشارہ دینے کی کوشش کرہا ہے کہ کشیدگی اور مشکل کے وقت میں بھی اس کے ساتھ شراکت دار موجود ہیں۔ ساتھ ہی یہ ایران کی جانب سے دوسرے ملکوں کا مقابلہ کرنے کی کوشش  بھی ہے۔ یہ ایسا اشارہ نہیں کہ ایران اور چین کے درمیان گہرے اور پھیلتے ہوئے منفرد تعلقات قائم ہیں۔‘

اتوار کو جب امریکی صدر جو بائیڈن سے ایران اور چین کے درمیان مضبوط ہوتے تعلقات کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے جواب دیا کہ وہ ’اس معاملے پر کئی سال سے تشویش میں مبتلا ہیں۔‘

توانائی کا متلاشی اور کرونا (کورونا) وائرس کی وبا کے معاشی اثرات سے باہر نکلتا ہوا چین پہلے سے ایران سے دنیا کے کسی اور ملک کے مقابلے میں زیادہ تیل درآمد کر رہا ہے۔ باوجود اس کے کہ سخت امریکی پابندیوں نے ایران کے ساتھ تقریباً تمام شعبوں میں تجارت کو روک رکھا ہے۔

ایران اور چین مشترکہ فوجی مشقیں کرتے ہیں۔ بہت حال ہی میں ایران نے فروری میں بحرہند میں روس کے ساتھ مشقیں کی ہیں۔ ایران اور چین کئی سال سے انٹیلی جنس کے معاملات پر ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے چلے آ رہے ہیں۔ تہران کا ماننا ہے کہ اس نے بیجنگ کو امریکی ڈرونز اور انسانی جاسوسی کے حوالے سے حساس معلومات فراہم کی ہیں۔

چین اور ایران کے درمیان سٹریٹیجک تعاون کے معاہدے کی بدولت ایران بیجنگ کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے میں شامل ہو جائے گا جو بنیادی ڈھانچے کا ایک عالمی منصوبہ ہے اور اس کا مقصد دنیا بھر کے درجنوں ملکوں میں چین کے اثرورسوخ اور سرمایہ کاری کا فروغ ہے کیونکہ وہ دنیا کی سب سے بڑی معیشت بننے کے لیے امریکہ کے ساتھ مقابلہ کر رہا ہے۔

 

چین اور ایران کے درمیان معاہدے کے لیے پانچ سال سے کام ہو رہا تھا۔ یہ اس کے بعد میز پر رکھا گیا جب ایران اور عالمی طاقتوں جن میں چین بھی شامل ہے، نے 2015 نے ایٹمی معاہدے پر دستخط کر دیے۔ بعد میں سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پابندیوں کی متنازع پالیسی اپناتے ہوئے اور محدود فوجی کارروائیاں کرتے ہوئے اس معاہدے سے الگ ہو گئے۔ ان اقدامات کا مقصد ایران کو عدم استحکام اور غربت میں مبتلا کرنا تھا۔

ایران نے ان اقدامات کے جواب میں معاہدے میں طے حدود سے تجاوز کرتے ہوئے افزودہ یورینیم کے ذخیرے میں اضافہ اور اس کا معیار بہتر کر کے اپنا ایٹمی پروگرام تیز کر دیا۔ بائیڈن نے وعدہ کیا کہ صدر منتخب ہونے کے بعد دوبارہ ایٹمی معاہدے میں شامل ہو جائیں گے لیکن تب سے وہ ایران سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ پہلے وہ معاہدے کی مکمل پاسداری کرے۔ ایران نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ اس کا اصرار ہے کہ پہلے امریکہ پابندیاں اٹھائے۔

چین کے ساتھ معاہدے کرنے سے ایران میں امریکہ کا مقابلے کرنے کا حوصلہ پیدا ہو گا۔ برطانوی ڈرہم یونیورسٹی کے محقق اور چین، ایران تعلقات کے ماہر بننے والے یاکو پوشیتہ کہتے ہیں: ’یہ یقینی ہے کہ اس سے ایران کو کچھ سیاسی فائدہ ہو گا۔ وہ اس معاہدے کو بڑھا چڑھا کر پیش کریں گے تا کہ یہ ظاہر کر سکیں کہ وہ تنہا نہیں ہیں۔ یہ ظاہر کر سکیں کہ اگر پابندیاں نہ اٹھائی گئیں تو ان کے پاس پلان بی موجود ہے۔ اس میں چین کی جانب سے امریکہ کو پیغام دیا گیا ہے کہ ہم اپنا کام جاری رکھیں گے اور ہمیں آپ کی پالیسیوں کی پروا نہیں ہے اور اگر ہم ایران کے ساتھ تعلقات مضبوط کرنا چاہیں گے تو اہم ایسا کریں گے۔‘

ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف اور ان کے چینی ہم منصب وانگ یی نے ہفتے کو معاہدے پر رسمی طور پر دستخط کر دیے۔ ایران میں چین کے سابق سفیر ہوا لمنگ نے کہا ہے کہ معاہدے سے چین کے ایران کے ساتھ تعلقات میں ’بہت بڑی‘ تبدیلی آئے گی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے چینی اخبار ’ساؤتھ چائنہ مورننگ پوسٹ‘ کو بتایا: ’کارٹر انتظامیہ کے دور سے امریکہ نے اکثر چین کو اس کے ایران کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے یاددہانی کروائی ہے۔ امریکہ ان تعلقات کو امریکہ چین تعلقات میں رکاوٹ کے طور پر دیکھتا ہے لیکن حالیہ مہینوں میں چین امریکہ تعلقات میں بنیادی تبدیلیوں کے ساتھ وہ دور ختم ہو گیا۔‘

چین اور ایران کے درمیان معاہدے کی بعض تفصیلات خفیہ رکھی گئی ہیں۔ یہ وہ حقیقت ہے جس نے ایران اور علاقے کے دوسرے ملکوں میں ناقدین کو پریشان کر دیا ہے۔ ایران میں سخت گیر طبقے اور حزب اختلاف کے بیرون ملک رہنماؤں دونوں نے کسی ثبوت کے بغیر بظاہر دعویٰ کیا ہے کہ یہ معاہدہ ایران کو چین کی زیرحفاظت ملک بنا دے گا۔

چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان ژاؤ لی جیان نے پیر کو کہا کہ اس معاہدے کا مقصد کسی دوسرے ملک کے اثرورسوخ کا مقابلہ کرنا نہیں ہے۔ اس میں مخصوص ٹھیکے یا تجارت یا سرمایہ کاری کے حوالے رقوم کے اہداف شامل نہیں کیے گئے۔

ترجمان کے بقول: ’منصوبے کا مقصد دونوں ملکوں کے درمیان معیشت، علم وہنر اور دوسرے شعبوں میں تعاون کے امکانات کا جائزہ لینا اور طویل مدت کی مالی توقعات اور تعاون کے طریقوں کے لیے منصوبہ بندی کرنا ہے۔‘

بتمنگیلیج کہتے ہیں کہ ممکن ہے کہ یہ معاہدہ ان معاہدوں جیسا ہو جو چین پہلے سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور عراق کے ساتھ کر چکا ہے۔ لیکن اعلیٰ ایرانی حکام نے اس معاہدے کو ڈرامائی قدم کے طورپر دیکھا ہے جس کا مقصد یورپی و ایشیائی ممالک جن میں روس، ترکی، ایران اور چین کے درمیان اتحاد کو مضبوط بنانا ہے۔ یہ وہ ملک ہیں جو امریکی اجارہ داری کو نہیں مانتے۔

ایران کی طاقتور سپریم نیشنل سکیورٹی کونسل کے سیکرٹری علی شمخانی نے دعویٰ کیا کہ یہ معاہدہ اس لیے ہے کہ ثابت کیا جا سکے کہ امریکہ اور دوسری مغربی طاقتیں غلطی پر ہیں۔ انہوں نے اپنی ٹویٹ میں لکھا: ’بائیڈن ٹھیک کہتے ہیں۔ مشرق میں سٹریٹیجک تعاون سے امریکہ کے زوال میں تیزی آ رہی ہے۔‘

ایرانی حکام کے مطابق معاہدہ سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ اور پارلیمان کے سابق سپیکر علی لاریجانی نے تیار کیا۔ لاریجانی کے مشیر منصور حقیقت پور نے کہا ہے کہ سلامتی کے خدشات کے پیش نظر معاہدہ کا مکمل متن خفیہ رکھا گیا ہے۔

انہوں نے نیوز ویب سائٹ ’جمران‘ کو بتایا: ’امریکہ کے بارے میں اپنے خیالات کے پیش نظر چینیوں نے ہمیں بتایا ہے کہ اسے عام نہ کیا جائے۔ معاہدے میں ایک حصہ دفاع سے متعلق ہے۔ اس وقت چین اور دوسرے ملکوں کو امریکہ کے ساتھ مسائل درپیش ہیں اور اس (معاہدے) کے بارے میں کھلے عام بات نہیں کر سکتے۔‘

بعض ذرائع ابلاغ نے رپورٹ کیا ہے کہ چین ایران معاہدے میں ایران میں 25 سال میں چینی کی جانب سے چار سو ارب ڈالر کی سرمایہ کاری شامل ہے۔ لیکن ماہرین نے کہا ہے کہ یہ ان اعدادوشمار کے انتہائی مبالغہ آمیز ہونے کا امکان ہے اور اس کی کوئی ٹھوس بنیاد موجود نہیں ہے۔

سعودی عرب جسے پابندیوں کا سامنا نہیں ہے اور لامحدود مقدار میں تیل فروخت کر سکتا ہے، میں چین کی سرمایہ کاری صرف پانچ ارب ڈالر سالانہ ہے۔

حقیقت پور نے معاہدے کو امریکی اور یورپی پابندیوں کے ’تابوت میں کیل‘ قرار دیا ہے۔ انہوں نے کہا: ’ہم نے دکھا دیا ہے کہ دنیا بڑی ہے اور امریکہ اور یورپ کچھ نہیں کر سکتے۔‘

یہ معاہدے ایران اور کمیونسٹ چین کے درمیان باضابطہ سفارتی تعلقات کے قیام کے 50 سال پورے ہونے پر کیا گیا ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کے ماہرین کہتے ہیں کہ معاہدے سے بیجنگ اور تہران کے درمیان گہرتے ہوئے تعلقات کی عکاسی ہوتی ہے۔ ماہرین محسوس کرتے ہیں کہ معاہدے میں ایسی شرائط نہیں ہیں جن پر عمل درآمد کرنا لازمی ہو۔ 

شیتہ کے بقول: ’اگر آپ سفارتی، سیاسی اور فوجی تعلقات کی 50 سالہ تاریخ پر نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ دونوں ملکوں کے تعلقات میں خاصا تسلسل ہے۔ ایسی صورت میں کہ جب چین اور ایران اپنے آپ کو مضبوط شراکت دار اور امریکہ کے خلاف اتحادی کے طور پر پیش کرتے ہیں، یہ معاہدہ دنوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں حقیقی پیشرفت کے مقابلے میں محض ایک دکھاوا ہے۔‘

ایرانی حکام کی بڑھک کے باوجود ایران پر مسلسل عائد پابندیاں اور خود ایران میں کاروبار کے لیے ناسازگار ماحول چینی سرمایہ کاری میں رکاوٹ بن سکتا ہے۔ تہران اور بیجنگ کے درمیان سلامتی کے شعبے میں تعلقات کی مضبوطی علاقے میں چین کے دوسرے شراکت داروں کو متاثر کرے گی جن میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات خاص طور پر شامل ہیں۔

بتمنگیلیج کے بقول: ’ایک چینی کمپنی روبوٹکس کی ایک بڑی جرمن کمپنی کی مالک ہے۔ ایک چینی کمپنی یونانی بندرگاہ کی مالک ہے۔ ایران میں چینی سرمایہ کاری کا کسی سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔‘

© The Independent

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا